en-USur-PK
  |  
24

فلسفہ تجسد

posted on
فلسفہ تجسد

Philosophy of Incarnation

فلسفہ تجسد

Allama Paul Ernest

مسیحی الہیات میں مسئلہ تجسد سے مراد خدا کا انسانیت اختیار کرنا ہے یعنی خدا جو خود ہست ، لامحدود اور ازلی روح ہے وہ کامل خدا رہتے ہوئے ایک وقت انسان بنا اور ہمیشہ کے لئے انسان بنا۔ خدا خود ہست روح ہے پس خدا خود ہست ہے اور روح ہے اور روح غیر مادی اور غیر فانی ہے اور عقل اور آزاد مرضی رکھنے والی ہے اور غیر مادی ہونے کے باعث نادیدنی اور لطیف ہے پس روح غیر مادی اور غیرفانی اور لطیف ہستی ہے جس میں عقل اور آزاد مرضی پائی جاتی ہے اور انسان خدا کا مخلوق ہے جس کا فانی بدن اور غیر فانی روح ہے۔

ہندو مت اوتار کی تعلیم کو بہت وسیع کرکے حیوانات ِ غیر ناطق میں بھی اوتار ہونے کا قائل ہے مثلاً وشنو کے دس اوتاروں میں سے اکثر اوتار جانوروں میں ہوئے یعنی مچھ کچھ اور سور وغیرہ میں۔ دوسری طرف اسلام ہے جو تجسد اور اوتار کی تعلیم کا سخت منکر ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا کسی مخلوق ذات کو پنا سکتا ہی نہیں۔ مسیحیت ان دو انتہاؤں کے بین بین ہے۔ مسیحیت کی تعلیم یہ ہے کہ خدا میں ہر شے سے ہم وجود ہوجانے یا وجودی طور پر متحد ہوجانے کی قدرت ہے۔ خدا ہر شے کے ساتھ متحد ہو کر ہم وجود ہوسکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے۔ وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں مگر وہ اپنی قدرت سے وہ کام کرتا ہے جو اس کی حکمت کے مطابق ہوا اور جو اس کی دانائی میں موزوں ہو چونکہ جمادات ، نباتات اور حیوانات ِ غیر ناطق میں متجسد ہونے کے ضرورت نہیں اس لئے خدا ان میں نہ متجسد ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ ازروئے قدرت تو ہوسکتا ہے لیکن ازروئے حکت نہیں ہوسکتا ۔ فرشے محض روح ہیں اور جمادات ، نباتات اور حیوانات ِ غیرناطق محص مادہ ہیں۔ لیکن انسان نہ محض روح ہے اور نہ محض مادہ بلکہ روح اور مادہ دونوں ہے پس انسان میں متجسد ہونے سے خدا دونوں طرح کی خلق کردہ چیزوں سے متحد ہوتا اور انہیں اپناتا ہے۔ وہ روح سے وجودی طور پر متحد ہوا اور مادہ سے بھی کیونکہ انسان روح اور مادہ ہے۔ خدا فرشتے سے بھی وجودی اتحاد سے متحد ہوسکتا ہیلیکن وہ اتحاد وجودی تجسد نہیں ہوگا۔ کیونکہ تجسد کے معنی ہیں جسد اختیار کرنایعنی بدن یا جسم اختیار کرنا اور اس بدن انسانی یا جسم انسانی اختیار کرنا مراد ہے۔ اور اس سے مراد انسانیت اختیار کرنا ہے۔ خدا محض ناطق اور سمجھ دار ذات کو یعنی خودآگاہ۔ خود واقف اور rational یعنی سمجھدار ذات کو اختیار کرکے اپنے وجود میں شامل کرتا ہے۔ انسان خود آگاہ ہے یعنی یہ جانتا ہے کہ میں انسان ہوں۔ اس میں خود شناسی اور خوددانی پائی جاتی ہے اور خود شناسی اور خود دانی کے باعث اس میں خدا شناسی اور خدادانی بھی پائی جاتی ہے اس لئے خدا انسانی ذات کو کسی اعلیٰ مقصد کے لئے اختیار کرسکتا ہے فرشتے بھی خود آگاہ خودشناس اور خود دان ہیں اس لئے ان میں خدا آگاہی خدا شناسی اور خدادانی بھی پائی جاتی ہے ۔ اور اس لئے خدا فرشتے سے اتحاد وجودی سے متحد ہوسکتا ہے۔ خدا حیوانات ِ غیر ناطق کے ساتھ اتحادِ وجودی سے متحد نہیں ہوتا کیونکہ کسی حیوان میں متجسد ہونے اور اوتار لینے کی کوئی ضرورت نہیں اور حیوانات میں نہ خود وقوفی اور نہ خدا وقوفی پائی جاتی ہے مثلاً مچھ نہیں جانتا کہ وہ مچھ ہے اور مچھ ہونا کیا ہے تو وہ یہ کیونکر جان سکتا ہے کہ میں متجسد خدا ہوں۔ خدا کا متجسد ہونا اس کی کسی حکمت پر مبنی ہوسکتا ہے ۔ مثلاً خدا متجسد ہو سکتا ہے یعنی اقنومی طور پر متحد ہوسکتا ہے اپنی محبت کو انتہا تک پہنچانے کے لئے اور ایسا کرنے کے لئے وہ جس چیز میں چاہے متجسد ہوسکتا ہے یعنی اس کی حکمت خدا کا جس چیز میں متجسد ہونا پسند کرے  وہ اسی میں متجسد ہوسکت اہے اور خدا کے متجسد ہونے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خدا گنہگاروں کو بچانے کی خاطر قربان ہونے کے لئے متجسد ہو۔ جمادات ، نباتات اور حیوانات غیر نطاق گنہگار نہیں ہیں ان میں گناہ کے ارتکاب کا امکان نہیں پایا جاتا جس طرح کنکر پتھر اور پودے میں گناہ کا امکان نہیں اسی طرح حیوان ِ غیر ناطق میں گناہ کا امکان نہیں اس لئے انہیں گناہ سے نجات دلانے کے لئے ان میں سی کسی میں متجسد ہونا لایعنی ہے وہ محبت کو بھی نہیں سمجھتے اس لئے ان کے لئے محبت کو انتہا تک پہنچانے کے لئے ان میں سے کسی میں متجسد ہونا بھی عبث ہے۔ ہندومت کا عقیدہ یہاں تو صحیح ہے کہ خدا متجسد ہوسکتا ہے لیکن کیسی ذات میں متجسد ہوسکتا ہے یا کیسی ذات کے ساتھ اقنومی طور پر متحد ہوسکتا ہے اور کس مقصد کے لئے متحد ہوسکتا ہے اس کے بارے میں یہ مذہب لاعلم ہے اور غلط تعلیم دیتا ہے پس ہندو دھرم کا یہ تعلیم دینا کہ خدا نالائق اور فضول یا ادنیٰ اور ردی باتوں کے لئے اوتار لے سکتا ہے اور اس نے معمولی اور نالائق باتوں کے لئے اوتار لیا اور حیوانات میں بھی اوتار لیا اور ایک انتہا تک پہنچ جانا ہے ۔ دوسری طرف ہمارے وہ بھائی ہیں جو کسی مخلوق ذات میں خدا کے تجسد اور اتحاد شخصی کے امکان کو قبول نہیں کرتے یعنی یہ دوسری انتہا پر ہیں۔ ان کے نظریے پر ہماری تنقید یہ ہے کہ خدا کیوں متجسد نہیں ہوسکتا؟ خدا کے متجسد ہونے کے لئے یہ تین خوبیوں کی ضرورت ہے یعنی قدرت محبت اور حکمت کی ۔ تجسد کو سرانجام دینے کے لئے خدا میں قدرت ہونا چاہئے اگر خدا میں قدرت نہ ہوتو وہ متجسد نہیں ہوسکتا کیونکہ قدرت کے بغیر کچھ نہیںہوسکتا۔ نجات دینا اور نجات دینے کے لئے تجسد کی طرف مائل ہونا محبت کا کام ہے۔ اگر خدا میں محبت نہ ہو تو وہ نجات دینا نہیں چاہے گا اور نہ تجسد کی طرف مائل ہوگا اور لائق مقصد کے لئے اور موزوں چیز میں متجسد ہونے کے لئے حکمت چاہئے اگر اس میں حکمت نہ ہو تو پھر بھی متجسد تو ہوسکتا ہے لیکن بے ٹھکانے متجسد ہوگا وہ مچھ یا کچھ یا باراہ یعنی سور وغیرہ بنتا پھریگا اور یا حکمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ متجسد ہوگا ہی نہیں۔ خواہ اس میں قدرت اور محبت ہو لیکن حکمت نہ ہونے کی وجہ سے اسے محبت کو انتہا تک پہنچانے یا گنہگاروں کو بچانے کی عمدگی کا علم نہیں ہوگا پس خدا سی صورت میں متجسد نہیں ہوسکتا جبکہ وہ قدرت محبت اور حکمت سے خالی ہو لیکن خدا میں قدرت مطلق حب مطلق اور حکمت مطلق پائی جاتی ہیںاور خدا قادر مطلق محب مطلق اور حکیم مطلق ہے اس لئے اس میں متجسد ہونے کا کامل امکان پایا جاتا ہے اور تجسد کو ناممکن ماننے والے غلطی پر ہیں۔ انسان میں متجسد ہونے سے مادی اور غیر مادی دونوں طرح کی مخلوق کے ساتھ میل جول ہوجاتا ہے اور پھر کسی فرشتے سے شخصی طور پر متحد ہونے اور حیوانات ، نباتات اور جمادات میں متجسد ہونے کی ضرورت ہی نہیں رہتی پس تجسد کو ناممکن ماننے والے اس صداقت سے لاعلم اور بے خبر ہیں۔ خدا کا ہر شے اور ہر شے کے ساتھ وجودی طور پر متحد ہونا ممکن ہے۔ عقل کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ بتائے کہ تجسد الہٰی کا امکان ہے یا نہیں عقل اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی اس سے آگے مکاشفہ کی دنیا شروع ہوجاتی ہے یعنی آیا خد اکبھی متجسد ہوا ہے یا نہیں یہ بتا نا مکاشفہ کا کام ہے۔ خدا کی کتاب اور خدا کی کلسیاسے معلوم ہوتا ہے کہ خدا متجسد ہوا ہے کیونکہ لکھا ہے کہ ’ کلمہ متجسد ہوا   یوحنا  ۱۴:۱۔

کلمہ خدا کی پاک ذات میں دوسرا شخص یا اقنوم ہے۔ خدا کا اکلوتا بیٹا خدا کا کلمہ ہے۔ وہ خدا کی ذات کا نقش یا خدا کی اندرونی تصویر ہے۔ صرف کلمہ متجسد ہوا باپ اور روح القدس متجسد نہیں ہوئے۔ اگرچہ یہ تینوں کسی ذات میں متجسد ہوسکتے ہیں یا دو دو کر کے یاایک ایک کرکے مختلف ذاتوں کو اختیار کرسکتے ہیںیہ سب کچھ ممکن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ محض کلمہ متجسد ہوا ۔ کلمہ متجسد ہونے میں خدا کی حکمت ہے۔ کیا؟ اس میں خدا کی یہ حکمت ہے کہ تجسد کا مقصد چونکہ گنہگار انسان کو نجات دینا ہے اس لئے کلمہ کو یعنی بیٹے کو باپ کے آگے قربان ہونا چاہئے نہ کہ باپ کو بیٹے کے آگے۔ اگر تینوں کسی ایک ہی ذات میں متجسد ہوتے تو کس کے آگے قربان ہوتے پس معقول اور پسندیدہ یہی ہے کہ تجسد کا جب اولین مقصد گنہگار انسان کو نجات دینا ہوتو بیٹا باپ کے آگے قربان ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ گناہ سے خدا کی ہتک ہوتی ہے ۔ خدا کے بے حد لائق بیٹے نے اپنے باپ کی ہتک کا بدلہ دیکر اس کی عزت کو بحال کرنا پسند کیا۔  تیسری وجہ یہ ہے کہ گناہ خدا کی نافرمانی ہے خد اکے بیٹے نے انسان بن کر خدا کی فرمانبرداری کی۔ اس نے موت بلکہ صلیبی موت تک فرمانبرداری کی۔ انسانی نافرمانی کے عوض بیٹے نے اپنے  باپ کی کامل فرمانبرداری کی اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ کلمہ یا بیٹا خدا کی اندرونی تصویر ہے اور کائنات اس کی بیرونی تصویر ہے لیکن یہ بیرونی تصویر گناہ کی وجہ سے بگڑی ہوئی ہے۔ مناسب اور موزوں یہی تھا کہ خد اکی اندرونی تصویر خد ا کی بیرونی بگڑی ہوئی تصویر کو درست کرے ، اس کو اپنے مطابق کرے۔ جس طرح خدا کی اندرونی تصویر لامحدود طور پر درست ہے اسی طرح وہ انسان کی ذات کو خصوصاً درست کرے اس کو اپنے مطابق کرے۔ جس طرح خدا کی اندرونی تصویر لامحدود طور پر درست ہے اسی طرح وہ انسان کی ذات کو خصوصاً درست کرے۔ کلمہ کی اقنومیت کی راستی اور درستی انسانی ذات کی خرابی اور بگاڑ کو درست کرے۔ اس کی خرابی اور بگاڑ کو دور کردے اور یوں خدا کی اندرونی تصویر خدا کی بیرونی تصویر کو درست اور ٹھیک کرے پس ان وجوہ سے انسب یہی تھا کہ کلمہ ہی متجسد ہو اور خدا کی حکمت کے مطابق کلمہ ہی متجسد ہوا بے حد لائق بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ بیلوں اور بچھڑوں کی قربانی کو تو نے نہ چاہا تب میں نے کہا دیکھ اے خدا میں آتا ہوں۔ انسان ملک قوم اور مذہب کے لئے اپنے دوست کے لئے یا کسی بھی شخص کے لئے قربان ہوسکتا ہے اور خدا کا کلمہ متجسدہو کر کل بنی نوع انسان کے لئے قربان ہونے کے لئے آیا۔ خدا کا بیٹا انسان بنکر انسان کے لئے قربان ہونیاور اسے بچانے کے لئے آیا۔

ہمارے مسلم بھائی تعلیم تجسد پر چند ایک اعتراض کرتے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ تجسد کی صورت میں خدا کو نو ماہ تک پیٹ کی آلودگیوں میں رہنا پڑتا ہے جواب اس کا یہ ہے کہ خدا پیٹ کی آلودگیوں سے آلودہ نہیں ہوتا۔ وہ روح ہے اور مادی آلودگیوں سے بے لوث رہتا ہے۔ روشنی میلی چیز پر پڑنے سے میلی نہیں ہوجاتی بلکہ میلی چیز رو شن کردیتی ہے اسی طرح کوئی آلودگی خدا کو آلودہ نہیں کرسکتی کیونکہ وہ روح ہے اور وہ مادی آلودگیوں سے بے لوث رہتا ہے ۔ خدا ہر جگہ موجود ہے ، کھاد کے ڈھیرپر اور ڈھیر میں بھی موجود ہے۔ سب مردوںاور عورتوں کے پیٹوں میں ہمیشہ موجود ہے۔ جب عورت کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے تب بھی خدا عورت کے پیٹ میں اور بچے میں اور جن چیزوں سے بچہ لپٹا ہوتا ہے ان میں موجود ہوتا ہے۔ اگر تجسد کی صور ت میں خدا کو نو ماہ تک پیٹ کی آلودگیوں میں رہنا پڑتا ہے تو خدا کے ہروقت اور ہر جگہ موجود ہونے سے اسے ہمیشہ پیٹ کی آلودگیوں میں رہنا پڑتا ہے کیونکہ دنیا میں ہروقت حاملہ عورتوں کو موجودگی پائی جاتی ہے اور صرف حاملہ عورتیں ہی دنیا میں ہروقت نہیں پائی جاتیں بلکہ گائیں، بھینسیں ، بھیڑیں ، بکریاں ، گھوڑیاں ، گدھیاں ، شیرنیاں ، لومڑیاں اور گیدڑیاں وغیرہ بھی حاملہ ہوتی ہیں اور خدا ان کے پیٹوں میں بھی ہروقت موجود رہتا ہے گندگی کے ڈھیروں اور مردوں ، عورتوں ، چرندوں ، پرندوںاور درندوں کے پیٹوں کی غلاظت میں اس کا ہونا تو ایک طرف رہا وہ تو دوزخ جیسی ناپاک جگہ میں بھی موجود ہے وہ دوزخ اور دوزخیوں میں موجود ہے ۔ شیاطین اور برے انسانوں میں بھی موجود ہے لیکن پھر بھی وہ  آلودہ نہیں اور ناپاک نہیں ہوتا وہ دوزخ اور دوزخیوں میں موجود نہ ہو تو وہ ہر جگہ موجود نہیں ہوگا۔ خدا دوزخ میں موجود ہونے سے نہ تو ناپاک ہوتا ہے اور نہ اسے وہاں کوئی دکھ ہوتا ہے۔ اسے کہیں بھی کوئی دکھ نہیں ہوسکتا اور نہ اسے دوزخ میں کوئی تکلیف ہوسکتی ہے کیونکہ اس کی ذات میں خوشی خرمی شادمانی  خرسندی بہجت اور آنند ہے آرام و راحت اور کامل سکھ ہے پس ہو بہجت مطلق ہے اور ہمیشہ بے حد خوش ہے اور وہ بے حد پاک ہے اور بے حد مقدس ہونے کی وجہ سے تقدس مطلق ہے اس لئے اس کا ناپاک ہونا ناممکن ہے پس وہ دوزخ اور دوزخی میں موجود ہے مگر وہ دکھی اور ناپاک نہیں ہوتا۔ راستبازوں یا بہشت والوں میں خدا کی موجودگی دوست اور باپ کی حیثیت کی ہے لیکن شیاطین اور دوزخی انسانوں میں خدا اور خالق ہونے کی موجودگی ہے خداان میں موجود ہے کیونکہ خداخدا ہے اور خدا ہر جگہ موجود ہے اور ہر چیز کا خالق ہے ۔ خدا کی موجودگی ان میں اسی طرح کی ہے جس طرح کائنات کی دیگر چیزوں مثلاً ریت ، مٹی ، پتھر اور درندوں ، چرندوں اور گھاس پات میں ہے اور فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں دوست ہونے کی بجائے عادل کی حیثیت سے موجود ہے۔ جس طرح جیل میں سپرنٹنڈنٹ داروغہ کلرک اور پولیس کے سپاہی ہوتے ہیں اور انہیں۔ وہاں کوئی سزا اور کوئی تکلیف نہیں ہوتی اسی طرح خدا کو دوزخ میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور نہ ہوسکتی ہے۔ کڑاکے کی سردی اور چلچلاتی دھوپ اور جلتے تنور میں خدا کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ غلیظ سے غلیظ اور گندی سے گندی چیز کو اپنے خیال میں لاؤ۔ خدا اس میں بھی موجود ہے مگر وہ قطعاً غلیظ گندہ ناپاک اور آلودہ نہیں ہوتا پس نوماہ تک پیٹ کی آلودگیوں میں رہنا تو ایکطرف رہا خدا نے جب سے کائنات بنائی ہے وہ تب سے کائنات کی آلودگیوں میں رہتا ہے مگر وہ ان سے آلودہ نہیں ہوتا اور نہ کائنات کی آلودگیوں میں موجود رہنے اور موجود ہونے سے اس کی کسر شان ہوتی ہے۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ خدا نوماہ تک اپنی ماں کے پیٹ میں خون ِ حیض کھاتا رہا۔ یہ اعتراض بھی جہالت پر مبنی ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچہ خونِ حیض نہیں کھاتا بلکہ جو خوراک ماں کھاتی ہے وہی تحلیل ہو کر نال یعنی ناڑو کے ذریعے سے بچے کے پیٹ میں جاتی ہے۔ خوراک منہ کے راستے سے پیٹ میں نہیں جاتی بلکہ ناف کے راستے پیٹ میں جاتی ہے اور جو خوراک ماں کھاتی ہے وہی حل ہو کر بچے کے اندر جاتی ہے اور یہ اس سے بھی ظاہے کہ اگر بچے کی ماں کو مقوی خوراک کھلائی جائے تو بچہ مضبوط اور موٹا تازہ ہوتا ہے لیکن اگر گھٹیا خوراک دی جائے تو بچہ کمزور ہوتا ہے پس یہ باطل ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں خون ِ حیض کھاتا ہے۔ خدا تو کچھ کھاتا پیتا ہی نہیں لہٰذا خد اکے نو ماہ تک اپنی ماں کے پیٹ میں خونِ حیض کھاتے رہنے کے کیا معنی؟ انسا ن کے اندر خوراک خواہ منہ کے راستے جائے اور خواہ ناف کے راستے الوہیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور کھانا منہ سے کھانے کو کہتے ہیں نہ کہ ناف کے راستے خوراک کا اندر جانا بھی کھانا ہی ہے پس اپنی ماں کے پیٹ میں خدائی یا الوہیت نے کچھ نہیں کھایا تھا ہاں کدا نے جو انسانیت اختیار کی تھی وہ اس وقت ابھی بچہ تھی اور اپنی ماں کے پیٹ میں تھی اور دوسرے بچوں کی طرح  اس انسانیت کے اندر اس کی ماں کی خوراک نال کے ذریعے ناف کے راستے پیٹ میں جاتی رہی اور ایسا ہونا قطعاً قابل ِ اعتراض نہیںہے۔

تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اس صورت میں تو حضرۃ مریم خدا سے بھی طاقتور ہوئی کیونکہ وہ لامحدود اور بے حد بڑے خدا کو نو ماہ اپنے پیٹ میں اٹھائے پھری۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کو اٹھانے کے لئے کسی طاقت کی ضرورت نہیں کیونکہ خدا کا وزن ہے ہی نہیں۔ خدا تو روح ہے اور روح بے وزن ہوتی ہے۔ وزن تو صرف مادی چیزوں ہی کا ہوتا ہے جس شخص نے یہ اعتراض کیا تھا اس میں نے کہا تھا کہ خدا پتھر کا بناہوا نہیں ہے کہ وہ بے حد بھاری ہو۔ خدا روح ہے اس لئے اس کا کوئی وزن نہیں۔ دیکھ لو خدا ہر جگہ موجود ہے ۔ تمہارے سر پر بھی موجود ہے لیکن تم خدا کے بوجھ سے دب کر اور پس کر مر نہیں جاتے ۔ جسطرح تمہیں اپنے سر پر خدا کا بوجھ بالکل محسوس نہیں ہوتا اس طرح حضرۃ مریم کو بھی خدا کا بوجھ اپنے پاک بطن میں بالکل محسوس نہیں ہوتا تھا۔  اسے صرف اتنا ہی بوجھ محسوس ہوتا تھا جتنا اور ماؤں کو محسوس ہوتا ہے یعنی صرف جنین یسوع کے بدن کا وزن۔ پیٹ کے بچے یا جو بچہ رحم مادر میں ہو اس کے بدن کا وزن محسوس کرتی ہے اور جب یسوع اپنی ماں کے بطن اطہر میں تھا اس وقت حضرت مریم کو خداوند یسوع مسیح کی انسانیت کے بدن کا وزن محسوس ہوتا تھا اور بس۔

چوتھا اعتراض یہ ہے کہ متجسد ہونے سے خدا کھانے پینے اور پہننے وغیرہ حوائج جسمانی کا محتاج ہوتا ہے۔

جواب۔  خداوند نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ پہنتا ہے اور نہ رہائش کے لئے اسے کسی مکان کی ضرورت ہے۔ ان چیزوں کی ضرورت تو انسانی روح کو بھی نہیں چہ جائیکہ خدا ان چیزوں کا محتاج ہوا۔ خدا کے متجسد ہونے اسے کے بنائے ہوئے قوانین قدرت کے مطابق اس کی انسانیت کے بدن کو کھانے پینے پہننے اور مکان کی بھی ضرورت ہوگی لیکن اس کی الوہیت ان چیزوں کی کبھی محتاج نہیں ہوگی۔ کھانا جو ہم کھاتے ہیں وہ ہمارے بدن کی پرورش کیلئے ہوتا ہے نہ کہ روح کی پرورش کیلئے ۔ کپڑے جو ہم پہنتے ہیں وہ تن ڈھانکنے کیلئے نہ کہ روح ڈھانکنے کے لئے۔ روح تو نظر آتی ہی نہیں کیونکہ وہ غیر مادی ہے اور اس لئے نادیدہ اور نادیدنی ہے پاس اسے ڈھانکنے کے کیا معنی اور اسے چھپانے کے لئے کپڑوں کی کیا حاجت؟ سردی گرمی سے بچانے کے لئے بدن ہی کو کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بدن ہی کو رہائش کے لئے مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ روح چونکہ وجودی طور پر بدن کے ساتھ متحد ہوتی ہے یعنی بدن اور روح متحد ہو کر ہم وجود ہوتے ہیں اس لئے جس مکان میں بدن رہتا ہے اس میں روح بھی رہتی ہے لیکن روح کو مکان کی ضرورت نہیں مکان کی ضرورت صرف بدن کو ہے جیسے کھانے پینے اور پہننے کی ضرورت صرف بدن کو ہے پس متجسد ہونے سے خدا کھانے پینے پہننے اور رہنے کی چیزوں کا محتاج نہیں ٹھہرتا متجسد خدا کی انسانیت کا بدن زمینی زندگی کی چیزوں کے لئے محتاج ہوتا ہے اور جن چیزوں کا وہ محتاج ہوتا ہے وہ خدا کی اپنی ہی ہیں اسے کسی اور اس سے ان چیزوں کے لینے کی حاجت نہیں ہوتی۔

الوہیت کو ان چیزوں کی قطعاً کوئی حاجت نہیں۔ ان چیزوں کی حاجت صرف انسانی بدن کو ہے پس یہ اعتراج بھی تجسد کی حقیقت کو نہ جاننے کے سبب سے کیا جاتاہے۔

پانچوں اعتراض یہ ہے کہ ہندوؤں کے دس اوتار جھوٹے ہیں او ر کیا عیسائیوں کا ایک ہی اوتار سچا ہے؟

جواب۔ اگر گیارہ روپوں میں سے دس روپے کھوٹے ہوں اور ایک روپیہ کھرا ہو تو تعداد کی کمی کی وجہ سے کھرا روپیہ کھوٹا نہیں ہوجائیگا اور تعداد کی زیادتی کی وجہ سے کھوٹے روپے کھرے نہیں ہوں گے۔ سچا اور حقیقی خدا صرف ایک ہے لیکن جھوٹے غیر حقیقی مصنوعی اور بناوٹی خدا بے شمار ہیں اس سے حقیقی خدا غیر حقیقی نہیں بن جاتا۔ اور غیر حقیقی خدا حقیقی خدا نہیں بن جاتے۔ انبیاء سچے بھی ہوئے ہیں اور جھوٹے بھی۔ اس سے سچے انبیاء جھوٹے انبیا نہیں بن جاتے اور نہ جھوٹے انبیاء سچے بن جاتے ہیں۔ ہندو ۳۳ کروڑ دیوتے یا خدا مانتے ہیں لیکن آپ مسلمان صرف ایک ہی خدا کو مانتے ہیں تو کیا ہندوؤں کے ۳۳ کروڑ خد اسچے ہیں۔ اور آپ کا ایک ہی خدا سچانہیں؟ خدا صرف ایک ہے اور اس لئے سچا مذہب بھی سچے خدا کیطرح صرف ایک ہی ہے۔ اگرچہ زمیں انیک مذاہب موجود ہیں۔ اسی طرح ایک ہی سچا اوتار سچا ہے اور ہندوؤں کے ۳۳ کروڑ خدا محض فرضی ہیں۔ اسی طرح ہمارا ایک ہی اوتار سچا ہے اور ہندوؤں کے دس اوتار محض فرضی ہیں۔

چھٹا اعتراض یہ ہے کہ خدا کے انسان بننے سے خدا کی کسر شان ہے۔

جواب۔  خدا کے انسان بننے سے خدا کی کسر شان ہرگز نہیں ہے۔ ادنے ٰ کے اعلیٰ آنے سے اعلیٰ کا کچھ نہیں بگڑتا۔ بلکہ ادنیٰ کی شان بڑھ جاتی ہے اگر لعل یا جوہر کا نگینہ پیتل کی انگوٹھی میں جڑ دیا جائے یا سونے یا چاندی کی انگوٹی میں لگا دیا جائے تو لعل اور جوہر کی قیمت کم نہیں ہوگی بلکہ پیتل چاندی اور سونے کی انگوٹھی کی قدر و قیمت بہت بڑھ جائیگی۔ اسی طرح خدا کے متجسد ہونے سے انسانیت کی قدر و قیمت بہت بڑھ گئی ہے لیکن الوہیت کا کچھ نہیں گھٹا۔ پرانے زمانے میں بادشاہ رعایا کا حال معلوم کرنے کے لئے اور انہیں فیض پہنچانے کے لئے بھیس بدل لیا کرتے تھے وہ اس حالت میں بادشاہ ہی ہوتے تھے۔ اب ہمارے ملک میں بعض پولیس سپرنٹنڈنٹ بھیس بدل کر پھرتے ہیں تا کہ لوگوں کا عمدہ اور کامل طور سے بچاؤ کیا جائے اور پولیس سپرنٹنڈنٹ اس وقت بھی پولیس سپرٹنڈنٹ ہی ہوتا ہے اگر کوئی ہنس  ایک لاکھ روپے کا لعل نگل جائے تو اس سے لعل کی قیمت تونہیں گھٹے گی مگر ہنس کی قیمت بہت بڑھ جائیگی ۔ پس تجسد سے خداکی کسر شان نہیں ہوئی لیکن انسانیت کی قدر و قمیت بہت بڑھ گئی۔

ساتواں اعتراض یہ ہے کہ حضرت مسیح تو متجسد خدا نہیں ہے مگر عیسائیوں کی اندھی محبت نے انہیں بڑھا بڑھا کر خدا بنا دیا ہے۔

جواب۔ مسیحیوں کی اندھی محبت نے مسیح کو خدا انہیں بنایا وہ ہے ہی خدا۔ وہ فی الواقع ازلی و ابدی خدا ہے۔ اللہ کو مسلمانوں کی اندھی محبت نے خدا نہیں بنایا وہ ہے ہی خدا۔ وہ فی الواقع ازلی و ابدی خد اہے ۔ مسیح کے بنائے خدا نہیں بنا اور نہ کسی کی اندھی مخالفت اسے محض انسان بنا سکتی ہے بلکہ جو اسے محض انسان سمجھتے ہیں وہ اس کی حقیقت سے ناواقفیت کی وجہ سے اسے محض انسان سمجھتے  ہیں اور اسے خدا نہیں مانتے لیکن ایک وقت ایسا بھی آئیگا جب ان کو پتہ چل جائیگا کہ

شکل ِ انسان میں خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا

چاند بدلی میں چھپا تھا مجھے معلوم نہ تھا

اور اب ان کے بارے میں یوں کہنا راست ہے کہ

جو خد کی شکل میں تجھ کو نہیں ہیں دیکھتے

آنکھ پتھر کی ہے ان کی جسمیں بینائی نہیں

ہماری اندھی محبت نے اسے بڑھا بڑھا کر خدانہیں بنایا کوئی چیز بڑھتے بڑھتے لامحدود نہیں ہوسکتی اور نہ لامحدود خدا گھٹتے گھٹتے محدود ہوسکتا ہے۔ وہ خدا رہتے ہوئے انسان بنا۔ متجسد خدا اللہ انسان ہے یعنی خدا اور انسان  ہے۔ اس کی الوہیت ذرا بھی انسانیت نہیں۔ اور اس کی انسانیت ذرا بھی الوہیت نہیں۔ اس کی الوہیت صرف الوہیت ہے اور وہ انسانیت میں قطعاً تبدیل نہیںہوئی۔ اور نہ ہوسکتی ہے اور اس کی انسانیت صرف انسانیت ہے اوروہ الوہیت میں قطعاً تبدیل نہیں ہوئی ۔ متجسد خدا میں خدا خدا ہے اور انسان انسان۔ اس میں خدا انسان نہیں اور انسان خدا نہیں۔ یہ امتیاز حتمی طور پر قائم رہتا ہے اس کی مثال انسانی وجود کے روح اور بدن ہونے سے آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے ۔ ہماری روح اور ہمارا بدن وجودی طور سے متحد ہیں یعنی دونوں متحد ہو کر ہم وجود ہیں ان میں اتحاد وجودی پایا جاتا ہے ۔ اتحاد وجودسے روح اور بدن دونوں کا متحد ہو کر ہم وجود ہونا مراد ہے۔ بدن قطعاً روح نہیں ہے اور روح کے ساتھ متحد ہونے سے روح میں ذرا بھی تبدیل نہیں ہوتا بلکہ صرف بدن ہی رہتا ہے۔ اور روح قطعاً بدن نہیں ہے اور بدن کے ساتھ متحد ہونے سے بدن میں ذرا بھی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ صرف روح ہی رہتی ہے  اسی طرح متجسد خدا میں خدا اور انسان کا اتحاد اتحادِ وجودی ہے یعنی دونوں ہم وجود ہوجاتے ہیں۔ اور اس وجود کا نام خدا نہیں اور نہ اس وجود کا نام انسا ن ہے بلکہ اس وجود کا نام متجسد خدا یا خدا انسان ہے۔ یعنی وہ وجود جس میں خدا اور انسان کا اتحاد وجودی پایا جاتا ہے ۔ ہماری اندھی محبت نے اسے بڑھا چڑھا کر خد انہیں بنایا بلکہ ہمارے گناہوں نے اسے آسمان سے اتار اتار کر انسان بنادیا۔ یہ لوگ الٹا سمجتھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان خد ابن گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا انسان بن گیا یعنی ازلی اور بے شروع خدا نے انسانیت اختیار کرلی اسے ہم نے خدا نہیں بنایا۔ بلکہ یہ انجیل مقدس کی تعلیم ہے کہ وہ خدا ہے اور متجسد خدا ہے ملاحظہ ہو:

"ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے ساتھ تھا اور خدا تھا کلمہ اور کلمہ متجسد ہوا"

 

 

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, اسلام, غلط فہمیاں | Tags: | Comments (0) | View Count: (27562)
Comment function is not open
English Blog