en-USur-PK
  |  
04

دس کوڑھیوں کو شفا بخشنا

posted on
دس کوڑھیوں کو شفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

22-Miracle   

Jesus Cleanses Ten Lepers

Luke 17:11-19

 

دس کوڑھیوں کو شفا بخشنا

۲۲ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا۱۷باب۱۱تا۱۹

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

 

آیت نمبر ۱۱۔اور ایسا ہوا کہ یروشلم کو جاتے ہوئے وہ سامریہ اور گلیل کے بیچ سے ہوکر جارہا تھا ۔

سامریہ اور گلیل کے بیچ سے ہوکر جارہے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے وسط سے گذرا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو گلیل پہلے آتا ۔ لہذا مراد صرف یہ ہے کہ وہ ان دونوں کی سرحدوں کے بیچ سے گذرہے تھے ۔

آیت نمبر ۱۲۔اور ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت دس کوڑھی سیدنا مسیح کو ملے ۔

کوڑھ کی بیماری پر ایک پچھلے معجزہ کے ضمن میں مفصل بحث ہوچکی ہے (حضرت لوقا 5باب 12تا 16آیت ،حضرت متی 8باب 1تا 4آیت ،حضرت مرقس 1تا 45آیت)

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی کوڑھی ایک جگہ اکھٹے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی مصیبت اورضرورت کو محسوس کرکے ایک جافراہم ہوگئے تھے۔ اسی طرح ہم 2سلاطین 7باب 3آیت میں بھی دیکھتے ہیں کہ چار کوڑھی اپنی ضرورت کے سبب سے آپس میں مل گئے ۔ چونکہ کوڑھی ناپاک سمجھے جاتے تھے ۔اس لئے ان کو تندرستوں سے یعنی ان سے جو اس مرض میں مبتلا نہ تھے ہمیشہ ایک مقرری فاصلہ پر رہنا پڑتا تھا (دیکھو توریت شریف کتاب احبار 13باب 4آیت ،گنتی 5باب 2آیت )کیونکہ کوڑھ روحانی ناپاکی اور روحانی بیماری کی بلکہ روحانی موت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کوڑھیوں کو بھی اس تنہا جگہ میں مسیح کی خبر پہنچ گئی تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی شہرت دور دور پھیل گئی تھی۔اگر چہ یہودیوں اور سامریوں کے درمیان عداوت چلی آتی تھی مگر اس سخت بیماری کی وجہ سے ان کوڑھیوں میں قومی امتیاز مٹ گیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سامری کوڑھی یہودی کوڑھیوں کے ساتھ مل گیا ماسوائے اس کے یہ جگہ سرحد پر واقعہ تھی پس بآسانی دونوں اطراف کے لوگ مل سکتے تھے۔

آیت نمبر ۱۳۔انہوں نے دور کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا ۔اے مسیح اے صاحب ہم پر رحم کریں۔

اوپر ہم بتلا چکے ہیں کہ ان کو ایک مقرری فاصلہ پر رہنا پڑتا تھا۔ ان کو اجازت نہ تھی کہ دوسرے شخصوں کے پاس جائیں۔ مگر ان کو مسیح کی معجزانہ قدرت اور اس کے رحیمانہ فضل کی خبر مل گئی تھی لہذا وہ دعا کی آواز بلند کرتے ہیں۔ اس وقت بڑے سرگرم نظرآتے ہیں اور بڑے جوش سے صحت کے لئے ملتجی ہیں مگر شفا پاکر سوائے ایک کے سب یہ سرگرمی کھودیتے ہیں ۔ یعنی اچھے ہوکر اس جوش وخروش کے ساتھ اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے ۔ پر یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گووہ سیدنا عیسیٰ کو مسیح موعود ہونے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے تاہم اس کو ایک زورآور نبی مانتے تھے ۔ان میں ایمان تو تھا لیکن کامل نہ تھا۔ اور جناب مسیح ان کے ایمان کی صداقت کے سبب ان کو پاک وصاف کرتے ہیں۔ مگر اس وقت ایک عجیب طریقہ کام میں لاتے ہیں ۔ کچھ اس لئے کہ بیماروں کے ایمان کو آزمائے اور کچھ اس لئے کہ شاگردوں کو دکھائے کہ شفا بخشی کے کام میں وہ طرح طرح کے طریقہ  استعمال کرسکتے ہیں۔

آیت نمبر ۱۴۔جنابِ مسیح نے انہیں دیکھ کر کہا جاکر اپنے آپ کوکاہنوں کو دکھاؤ اور ایسا ہوا کہ وہ جاتے جاتے پاک وصاف ہوگئے ۔

دو تین باتیں اس جگہ غور کرنے کے قابل ہیں۔ (1)یہ کہ وہ ان کے ساتھ جو اس کے پاس صحت کے لئے آتے تھے اپنی عجیب حکمت کے مطابق طرح بطرح سلوک کیاکرتے تھے۔ کبھی کبھی جہاں مضبوط ایمان دیکھتے تھے دیر کیا کرتے تھے تاکہ ایمان اور بھی مضبوط ہوجائے ۔ اور کبھی کبھی کمزور ایمان کو دیکھ کر نہائت ملائمت سے پیش آتے تھے تاکہ وہ آزمائش میں گرفتار ہوکر کافور نہ ہوجائے کسی کو پہلے معاف کرتے ہیں اور پھر تندرست کرتے ہیں اور کسی کو پہلے شفا بخشتے ہیں کیونکہ اپنی حکمت سے دیکھتے ہیں کہ اس میں ایمان کی اعلیٰ برکت اسی طرح پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اور پھر اسے معاف کرتے ہیں (2)دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ وہ ان کو ڑھیوں کے ایمان کو آزماتے ہیں۔ دیکھئے کہ ابھی شفا کے آثار نمایاں نہیں ہونے پاتے کہ وہ ان کو کاہنوں کے پاس بھیجتے ہیں گویا یہ طلب کرتے ہیں کہ وہ ایمان سے اس بات کو مانیں کہ وہ حقیقت میں شفایافتہ ہوگئے ہیں۔ اور انہوں نے اس بات کو مان لیا کیونکہ حکم کے ساتھ ہی وہ اپنے تیئں کاہنوں کو دکھانے کے لئے روانہ ہوئے یا یوں کہیں کہ وہ ان کو ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جس کی حقیقت  کا کوئی ظاہری نشان اب تک پیدا نہیں ہوا۔مگر وہ ایمان سے اس بات کو مان لیتے ہیں ۔ (3)پر گو ان سب میں ایمان کا آغاز سا تو نظر آیا مگر صرف ایک میں کمالیت کو پہنچا۔ اس میں شک نہیں کہ ان سب نے مسیح کی بات کو سچ مانا کیونکہ اگر نہ جانتے تو کاہنوں کے پاس نہ جاتے وہ خوب جانتے تھے کہ کاہن شفا نہیں دے سکتے ۔ ان کا صرف یہ کام ہے کہ جب کوئی شفا یاب ہوجائے تو اس کی بابت چند رسومات کی تعمیل کے بعد سب کے سامنے منادی کردیں کہ یہ شخص صحت یاب ہوگیا ہے ۔ اور بس تاہم سوائے ایک کے اور کسی میں پورا ایمان نہیں پایا جاتا تھا۔ جہاں سچا اورکامل ایمان ہوتا ہے۔ وہاں نہ صرف مسیح کی بابت  درست مانی جاتی ہے بلکہ اسی پر سچا بھروسہ اورتکیہ  بھی کیا جاتاہے کیونکہ ایمان دار اسی کوسب  برکتوں کا چشمہ سمجھاتا ہے۔ (4)اس میں ان کی شکر گزاری اور نا سپاسی کے پرکھنے کا مطلب بھی چھپا ہوا تھا۔ اگر ان کو اسی وقت جبکہ انہوں نے درخواست کی تھی اور اسی جگہ جہاں درخواست کی تھی شفا مل جاتی تو ان کے لئے شکر گزاری ادا کرنا کچھ مشکل  نہ ہوتا۔ مگر دور سے لوٹ کر آنا اور شکر گزاری ادا کرتا جب کہ وہ خود پاس نہ تھا اور نہ کوئی دوسرا شخص ان کو مجبور کرنے والا تھا بڑی ہمت کا کام تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انہوں نے صحت کے آثار  محسوس کرنے شروع کئے اس وقت کسی قدر دور نکل گئے تھے۔ گو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتنی دور نکل گئے تھے۔(5)جنابِ مسیح اس جگہ شریعت کے احکام کی عزت کرتے ہیں۔ تاکہ وہ جو اپنے تیئں اس کے محافظ بتاتے ہیں کسی طرح کی حرف گیری نہ کرسکیں ۔ (دیکھیں توریت شریف  کتاب ِ احبار 13باب 2آیت ،بمقابلہ 14باب 2آیت )۔

آیت نمبر ۱۵،۱۶۔پھر ان میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ میں شفا پاگیا بلند آواز سے خدا کی حمد کرتا ہوا لوٹا۔ اور منہ کے بل جنابِ مسیح کے پاؤں میں گر کر ان کا شکر ادا کرنےلگا ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مسیح کے حکم کے مطابق پہلے یروشلم کو گیا اور جب کاہنوں نے اس کو دیکھ لیا اور وہ اپنی قربانی چڑھا چکا اور لوگوں کو معلوم ہوگیاکہ وہ شفا پاگیا ہے تب لوٹ کرآیا۔ لیکن عبارت سے کوئی اس قسم کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ برعکس اس کے یہی  ظاہر ہوتا ہے کہ جب وہ کوڑھی کچھ فاصلہ طے کر گئے اور صحت کے آثار ان کو دکھائی دینے لگ گئے تب یہ شخص شکر گزاری کی روح سے بھرا ہوا واپس آیا تاکہ خدا کی حمد اور اپنے شفا بخشنے والے کا شکریہ ادا کرے۔ جس طرح نعمان الیشع کے پاس واپس آیا کہ اپنا ہدیہ گزرانے (2سلاطین 5باب 15آیت ) اسی طرح یہ شخص بھی اپنے پاک صاف کرنے والے کے پاس آیا ۔مگر باقی نو کبھی نہ لوٹے ۔چاہئیے تھا کہ وہ بھی لوٹ کر آتے اور سیدنا مسیح کے پاؤں پر گرتے مگر انہوں نے کبھی اس بات  کا خیال نہ کیا۔ یہ گناہ کیسا عام اور عالمگیر ہے ؟ایک بزرگ نے خوب کہا ہے کہ جس طرح یہ لوگ پہلے مسیح کی مدد کے لئے اپنامنہ کھول کر چلاتے تھے اسی طرح ہم بھی "اپنا منہ جب تک کہ ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح اپنی برکتوں کا ہاتھ دراز نہیں کرتے کھولے رکھتے ہیں۔ مگر جب برکت مل جاتی ہے تو ایسے خاموش اور بے پرواہ ہوجاتے ہیں کہ گویا اس برکت نے ہمارا منہ بالکل بند کردیا ہے ۔

اور وہ سامری تھا۔ چونکہ سامری یہودیوں کے نزدیک غیر قوموں سے بہت بہتر نہیں سمجھے جاتے تھے ۔ لہذا حضرت لوقا کی انجیل میں جو کہ غیر قوموں کے لئے لکھی گئی اس بات کا مذکورہ کہ " وہ سامری تھا " خالی از دلچسپی نہیں۔ یہ سامری جو غیر قوموں کے برابر سمجھا جاتا تھا لوٹ کر شکر گزاری کے لئے آیا اور بڑی بڑی برکتوں کا وارث ہوا۔ مگر وہ جو یہودی ہونے کہ سبب وعدے کے فرزند اور آل ابراہیم میں سے تھے ان میں سے کوئی واپس نہ آیا۔ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہودی اپنی ناشکری کے سبب خدا کی بادشاہت سے خارج ہوسکتے ہیں۔ اور غیر قوم اپنے ایمان سے اس کی لازوال برکتوں میں شریک  ہوسکتے ہیں۔

اس شخص کی شکر گزاری راست قسم کی تھی۔ وہ پہلے خدا کی تمجید کرتا ہے اور پھر اپنے شفا بخشنے والے کے پاؤں پر گرتا ہے ۔

آیت نمبر ۱۷،۱۸۔جنابِ مسیح نے جواب میں کہا کہ کیا دسوں پاک صاف نہ ہوئے پھر وہ نو کہاں ہیں۔ کیا سوائے اس پردیسی کے اور کوئی نہ نکلا جو لوٹ کر خدا کی تمجید کرے۔

سیدنا مسیح جو جانتے ہیں کہ انسان میں کیا ہے ۔اور جو بار بار اپنے محسونوں کی ناشکری اور نا سپاسی دیکھ چکے ہیں ان نوکوڑھیوں کی ناشکری سے متعجب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا دسوں پاک صاف نہ ہوئے پھر وہ نو کہاں ہیں؟"گویا وہ خدا کی تمجید اور توصیف کی امید ان لوگوں سے زیادہ رکھتا ہے جو وعدوں کے وارث اور اسرائیل کی جمہوری سلطنت میں شامل ہیں جو پردیسی نہیں کیونکہ وہ خدا کے لوگ اور اس کے خاندان میں شامل ہیں۔ یہاں یہودیوں اور سامریوں کا مقابلہ پایا جاتا ہے۔ وہ نو کہاں ہیں؟کیا ان لفظوں میں سے ایک افسوس ناک صدانہیں آتی ؟ہمارے مالک ایک افسوس ناک سرگرمی سے ان نو شفایافتہ کوڑھیوں کا حال دریافت کرتے ہیں۔ ہم یہ خیال نہ کریں کہ سیدنا مسیح اس جگہ اپنی عزت کے خواہشمند  ہیں۔ وہ اپنی عزت کی اتنی پروا نہیں کرتے جتنا ان کو اس بات کا خیال ہے کہ خدا کی وہ شکر گزاری جو اپنے انسانی محسنوں اور فیض رسانوں کی طرف مخاطب ہوکر ایک کلمہ بھی نہیں کہتی۔دل سے پیدا نہیں ہوتی  ۔ اس سامری نے خدا کی حقیقی بڑائی کی کہ وہ اس کے پاؤں پر جس نے اس کو شفا بخشی تھی آگرا۔ مسیح خوب جانتے تھے کہ یہودیہ میں میرے بر خلاف کیسی سازشیں ہورہی ہیں۔  مگر باوجود اس علم کے وہ پھر  اس جگہ جو گلیل کی سرحد پر واقعہ  تھی اپنی شفا بخش محبت کو آشکارا کرتے ہیں۔پر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اب حالت بہت بدل گئی ہے۔ کیونکہ ایک دفعہ پہلے جب صرف ایک کوڑھی کو شفا بخشی گئی تو سینکڑوں زبانیں آپ کی تعریف میں زمزہ پرداز ہوئیں۔ مگر اب دس پاک صاف کئے گئے اور ان میں سے نو بے پروا نکلے ۔ اور ان میں سے کسی نے ایک لفظ شکریہ میں نہ کہا اور نہ گاؤں کے لوگوں میں سے کسی نے اس کی محبت اور قدرت کو پہچانا۔ وہ اس آخری سفر میں بھی شریعت او رکہانت کی عزت کرتا ہے ۔ مگر لوگ پھر بھی بدسلوکی سے پیش آتے ہیں۔ اس بات کا احساس ہمارے مولا کے دل کو افسوس سے بھردیتا ہے ۔ کیونکہ اس نے اپنے تیئں ان کوڑھیوں کو پاک صاف کرکے ہمدرد سردار کاہن ثابت  کیا ۔ مگر اب لوگوں کی بے قدری اور بے پروائی کے وسیلے دیکھتا ہے کہ لوگ اپنے مسیح موعود کی حقارت کرتے ہیں۔ لہذا اس کےکلام سے ایک قسم کا افسوس اور ایک قسم  کا شکوہ ٹپکتا ہے ۔ اور اس کا شکوہ بے جا نہیں کیونکہ جب ہم اس معجزے کی بے نظیر خاصیت پر غور کرتے اور ساتھ ہی اس بات کو سوچتے ہیں کہ جنہوں نے شفا پائی وہ کسی طرح کا استحقاق نہیں رکھتے تھے۔ اور نیز جب اس برکت کی عظمت کو جو انہیں ملی دیکھتے ہیں۔ تو ماننا پڑتا ہے کہ اس کی شکائت بجا تھی۔ مگر یہی شکائت جو ایک طرف اس کے دلی رنج اور افسوس کو ظاہر کرتی ہے دوسری جانب اس آدمی کو شکر گزاری کی تعریف کرتی ہے جو خدا کی بڑائی کرتا ہوا لوٹا اور آپ کے پاؤں پر گرا۔

آیت نمبر ۱۹۔پھر اس سے فرمایا اٹھ کر چلا جاتیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا۔

یہی اکیلا ان مبارک الفاظ کو سننے کی برکت سے مالا مال ہوتا ہے ۔ اسےشروع  میں ایک ادنیٰ برکت یعنی جسم کی صحت نصیب ہوئی مگر اس نے اپنے شفا بخشنے والے کی بزرگی ظاہر کی اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے صلہ میں اس کو بڑی برکت ملی اس کی روح کا کوڑھ بھی جاتا رہا۔ اس کا لوٹ کر مسیح کے پاس آنا ۔ اس کا خدا کی تمجید کرنا۔ اس کا مسیح کے پاؤ ں پر گرنا۔ اور مسیح کا اسے قبول کرنا اور اس کی طرف مخاطب ہوکر یہ فرمانا " تیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا"وغیرہ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ نہ صرف اس کے جسم کا کوڑھ دور ہوا بلکہ اس کا روحانی کوڑھ بھی جاتا رہا۔ کئی مفید باتیں ہم ا س بیان سے سیکھ سکتے ہیں (1)یہ کہ ہم ایمان لائیں کہ مسیح ہمارے کوڑھ کو دور کرسکتے ہیں ۔ہم اس کے کلام کو سچا سمجھیں یعنی جب وہ یہ کہتے ہے کہ جو کوئی مجھ پر ایمان لاتاہے ہلاک نہ ہوگا بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا تو ہم اس کی بات کو مانیں۔ اس کی روح پاک کی قدرت پر جو ہماری کمزوریوں اور بیماریوں اور ناپاکیوں کو دور کرنے والی روح ہے ایمان لائیں اور اسے اپنے دلوں میں قبول کریں۔ اور جو وسائل فضل کے اس نے ہماری روحانی زندگی کی تقویت کے لئے مقرر کئے ہیں انہیں کام میں لائیں ۔ اگر ہم ایسا کریں تو جو اس کا وعدہ ہے وہ پورا ہوگا۔ (2)دوسری بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ ہم کبھی اپنی پہلی بیماریوں کو جن سے مسیح نے ہم کو شفا بخشی ہے بھول نہ جائیں۔ ان نوکوڑھیوں نے اپنے کوڑھ کو یاد نہ رکھا۔ وہ گویا ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ہم کبھی بیمارہی نہیں ہوئے ۔ پر لازم ہے کہ اپنی پہلی آزمائشوں کو پہلی تکلیفوں کو ہمیشہ یاد رکھیں تاکہ وہ ہمیں اس کے پاؤں کے پاس لائیں جس نے ہم کو گناہ کے کوڑھ سے رہائی دی۔

نصیتحیں اور مفید اشارے

1۔ایمان کی آنکھ وہ آنکھ ہے جو اس بات کو پہچانتی ہے کہ مسیح نہ صرف ہمارے کوڑھ کو دور کرنے کی قدرت رکھتے ہیں بلکہ اسے دور کرنے کے لئے رضا مند بھی ہیں۔

2۔وہ ہمارے ایمان کو خوشی سے دیکھتے ہیں۔ عجیب طرح سے آزماتے ہیں پر کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیتے ۔ دیکھئے ان کوڑھیوں کے ایمان کو اس نے دیکھا آزمایا اور اپنی شفا بخشی سے مالامال فرمایا۔

3۔جناب ِ مسیح کی مدد کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ ہم اس بات کو پہچانیں کہ سچی مدد کا منبع وہی ہے کہ ہم ا سکی مدد کو شکر گزاری کے ساتھ قبول کریں۔ اور اسکے وسیلے پاکیزگی میں ترقی کریں۔ ان کوڑھیوں میں سے صرف ایک نے اس مطلب کوپہچانا ۔

4۔ایک توجہ طلب سوال۔ نو کہاں ہیں ؟اس سوال سے اور کئی سوال پیدا ہوتے ہیں شفا پانے سے پہلے وہ کہاں تھے؟ اب کہاں ہیں؟بعدمیں کہاں ہوں گے ؟اس میں سے صرف ایک لوٹا اور نوچلے گئے ۔ کیوں ؟اپنی ناشکری کے سبب شائد اب بھی یہی نسبت پائی جاتی ہے ۔یعنی ہر دس میں سے مشکل سے ایک شکر گزار ملتا ہے ۔ یہ نو کوڑھی شائد جلد جلد جاکر اپنے دوستوں کو خوشی کی خبر دینا چاہتے تھے کہ ہم اچھے ہوگئے ہیں۔ شائد وہ ہیکل میں جاکر ضروری رسومات کو جلد جلد ادا کرنا چاہتے تھے تاکہ ا ن سوشل حقوق کو جو سب بیماری کے چھن گئے تھے پھر واپس پائیں لیکن ان میں سے ایک ان سب باتوں کو بھول جاتا ہے اور صرف ایک ہی بات یاد رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اپنے شفا بخشنے والے کا شکریہ اداکرے ۔ اور اس کے صلہ میں اس نے زیادہ برکت پائی چنانچہ جناب ِ مسیح نے اسے فرمایا "تیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا۔"

5۔مقابلہ ۔ان کوڑھیوں کی سرگذشت سے معلوم ہوتاہے۔(1)کہ اگر  ایک طرف غائت درجہ کی تکلیف یادکھ ہے تو اس کے مقابلہ میں دوسری طرف غائت درجہ کی رحمت بھی ہے (2)بہت لوگ غائت درجہ کے ناشکر گزار ہیں۔ صرف ایک غائت درجہ کا شکر گذرا ہے (3)اسرائیلی اپنی ناشکری کے سبب اعلیٰ برکت سے محروم رہتے ہیں۔ مگر ایک اجنبی بڑی برکت سے مالا مال ہوتا ہے۔

6۔سچی شکر گزاری خدا کی برکتوں کا اقرار کرتی تعریف اور تمجید کے گیتوں میں ظاہر ہوتی مسیح کے پاؤں پر گر کر فروتنی کے پیرایہ میں اپنے تیئں آشکارا کرتی ہے۔

7۔جنابِ مسیح کے حیرت افزا احکام کا مقصد سوائے اس کے کہ اس کے بندوں کا ایمان زیادہ مضبوط ہو اور کچھ نہیں ہوتا دیکھوکوڑھی ابھی اچھے نہیں ہوئے کہ وہ انہیں حکم دیتاہے کہ تم جاکر اپنے آپ کو کاہن کو دکھاؤ۔مگر اسی عجیب حکم میں ان کے ایمان کی تقویت اور جسموں کی صحت کا وعدہ نہاں تھا۔ اس سے ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ جو کچھ مسیح کے قول کے مطابق ایمان سے کیا جاتا ہے وہ بے نتیجہ نہیں رہتا۔

8۔خدا کی شکر گزاری حقیقت میں مسیح کی شکر گزاری کے وسیلے ادا ہوتی ہے۔

9۔جو خدا کی برکت کی قدر کرتے وہ زیادہ برکت پاتے ہیں۔

10۔ہم شمار کی کثرت کی پروا نہ کریں۔ نو نہ شکروں کی سنگت چھوڑ کر ایک شکرگزاری کی صحبت اختیار کرنا بہتر ہے ۔

11۔دیکھیں جنابِ مسیح کس طرح لوگوں کی ناشکرگذاری کی شکائت کرتے ہیں؟کیا یہ شکائت ہم پر بھی عائدہوتی ہے یا ہم اس کی رحمتوں کے سبب اس کے پاؤں پر گر اس کے نام کی تمجید کرتے ہیں۔ 

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (16841)
Comment function is not open
English Blog