en-USur-PK
  |  
04

ایک کبڑی عورت کو شفا بخشنا

posted on
ایک کبڑی عورت کو شفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

20-Miracle   

Jesus Heals a Crippled Woman

Luke 13:10-17

 

ایک کبڑی عورت کو شفا بخشنا

۱۹ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا ۱۳باب ۱۰تا۱۷

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

 

باب ۱۳آیت ۱۰،۱۱۔پھر جنابِ مسیح سبت کے دن کسی عبادت خانہ میں تعلیم دے رہے تھے اور کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت وغیرہ ۔

اس معجزے کا بیان صرف حضرت لوقا ہی بیان کرتے ہیں یہ معجزہ بھی اور کئی معجزات کی مانند سبت کے روز وقوع میں آیا۔ اس کے مطالعہ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مولا کی نسبت کیا خیالات رکھتے تھے اور کس طرح اپنے مخالفوں کو جواب دیا کرتا تھا۔

ہم یہ نہیں بتاسکتے کہ یہ معجزہ کہاں واقع ہوا۔ ہم کو صرف اتنا بتایا گیا ہے کسی عبادت خانہ میں واقع ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہیکل تو صرف ایک ہی تھی جو یروشلم میں واقع تھی اور سب یہودی ہر جگہ سے وہیں مقرری اوقات پر حاضر ہوا کرتے تھے لیکن ان کے عبادت خانہ جا بجا پائے جاتے تھے۔ اور معلوم ہوتاہے کہ انہیں عبادت خانوں میں سے کسی عبادت خانہ میں جاکر جنابِ مسح حسب معمول تعلیم دے رہے تھے۔ جو لوگ وہاں حاضر تھے ان کے درمیان ایک عورت نظر آتی جو "اٹھارہ برس سے کسی بدروح کے باعث کمزوری "میں مبتلا تھی۔ ا سکی کمزوری اس کے کبڑے پن میں ظاہر ہورہی تھی۔ ہمارے پرانے ترجمہ میں ہے " جس کو اٹھارہ برس سے کسی روح کے باعث کمزوری تھی "اور انگریزی میں پرانے اور نئے دونوں ترجموں میں (spirit of infirmity) (کمزوری کی روح )پایا جاتا ہے ۔ پر ہمارے نئے ترجمہ میں "بدروح کے باعث "آیا ہے ۔ پر جب ہم جنابِ مسیح کے الفاظ کو جو آپ نے بعد میں فرمائے دیکھتے ہیں تو کسی طرح کا اس بات میں شک وشبہ نہیں رہتا کہ یہ عورت بھی سچ مچ کسی بدروح کے قبضہ میں گرفتار تھی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں "جس کو شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھا تھا "ان لفظوں سے بخوبی ظاہر ہے کہ وہ فی الحقیقت انہیں لوگوں کے زمرہ میں شمار ہونی چاہئیے جو بدروح کے قبضے میں گرفتار تھے۔گو ا سکی مصیبت ایسی شدید نہ تھی جیسی بعض اور لوگوں کی تھی جو بدروح کے پنجہ میں مبتلا تھے۔ اور یہی بات اس کے پبلک عبادت میں حاضر ہونے سے ظاہر ہوتی ہے۔ غالباً اس کی بیماری پہلے اس کی روح سے شروع ہوئی اور پھر ا سکا اثر اس کے بدن پر بھی پڑا۔ ایسا کہ وہ کبڑی ہوگئی اور سیدھی نہ ہوسکتی تھی۔

آیت نمبر۱۲۔جنابِ مسیح نے اسے دیکھ کر پاس بلایا اور اس سے کہا اے عورت تو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آقا ومولا اس کمزور عورت کو قبل اس کے کہ وہ آپ کی مدد طلب کرے خود اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور اسے شفا کا مژدہ دیتے ہیں۔ البتہ عبادت خانہ کے سردار کے الفاظ مذکورہ ذیل سے ظاہر ہوتے ہیں کہ وہ صحت پانے ہی کے لئے یہاں آئی تھی او رکہ ا س کا یہاں حاضر ہونا بذات خود ایک درخواست شفا یابی کی تھی۔عبادت خانہ کاسردار کہتا ہے "چھ دن میں جن میں کام کرنا چاہئیے پس انہیں میں آکر شفا پاؤنہ کہ سبت کے دن "ان لفظوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی شفا دہی کی خبر ہر جگہ مشتہر ہوگئی تھی اور یہ عورت اس لئے آئی تھی کہ شفا پائے ۔ پر سیدنا مسیح اس کے بولنے اور درخواست  کرنے سے پہلے اس کو فرماتے ہیں "اے عورت تو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی "ان لفظوں کے وسیلے وہ گویا اس کو تیار کرتا ہے اس جسمانی برکت کو جو وہ دینے پر تھے پانے کے لئے متوجہ ہو۔

آیت نمبر ۱۳۔اور جنابِ مسیح نے اس پر اپنے ہاتھ رکھے۔ اسی دم وہ سیدھی ہوگئی اور خداکی بڑائی کرنے لگی۔

آپ کے ہاتھ گویا اس اعلیٰ زندگی کا چشمہ تھے جس کے وسیلے سے اس کے جسمانی اور روحانی بند کھل گئے۔ اور اس میں نئی طاقت کے سوتے پھوٹ نکلے ۔اور اسی وقت یہ نتیجہ پیدا ہواکہ وہ جسمانی طور پر تندرست ہوگئی اور نیز روحانی طور پر بھی شفا یاب ہوئی جیسا کہ ان لفظوں سے مترشح ہے "خدا کی بڑائی کرنے لگی "اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے شفا دہندے کی تعریف بھی کرنے لگ گئی ہوگی اور اسی سے عبادت خانہ کا سردار زیادہ ناخوش ہوا ہوگا۔ (مقابلہ کرو حضرت متی 21باب 15تا 16آیت )۔

آیت نمبر ۱۴۔عبادت خانہ کا سردار اس لئے کہ مسیح نے سبت کے دن شفا بخشی خفا ہوکر لوگوں سے کہنے لگا چھ دن ہیں جن میں کام کرنا چاہئیے۔ پس ان میں آکر شفا پاؤ نہ کہ سبت کے دن ۔

اس وقت عبادت خانہ کا سردار سبت کی غیرت کے سبب خفا ہوتا ہے۔ لیکن غور کرنے کا مقام ہے کہ اس کی غیرت اور اس کے خوف میں ایک قسم کا سخت تخالف پایا جاتا ہے ۔ یعنی ایک طرف تو وہ سبت کے لئے اپنے تئیں غیرت مند ثابت کرتا ہے اور دوسری جانب ایک قسم کا ڈر بھی اپنے دل میں رکھتا ہے جس کے سبب سے وہ بات جو مسیح کوکہنا چاہتا ہے براہ راست کہنے کی جرات نہیں رکھتا بلکہ دوسروں کی طرف متوجہ ہوکر کہتا ہے حالانکہ مطلب اس کا یہ ہے کہ مسیح اس کے لفظوں کو سنے اور پھر سبت کے روز معجزہ نہ دکھائے۔ پر کیا وہ حقیقت میں سبت کے لئے غیرتمند تھا؟یا جنابِ مسیح کی تعریف کی سن کر جل گیا تھا ؟جس طرح سردار او رکاہن ایک اور موقعہ پر لڑکوں کو "ابن داؤد کو ہوشعنا "کہتے ہوئے سن کر "خفگی " سے بھر گئے تھے اسی طرح یہ شخص بھی خفا ہوا۔ اس شخص کی اصل خاصیت یا سیرت 15آیت سے کھلتی ہے جہاں وہ "ریاکار " بتایا جاتا ہے ۔پس تعجب نہیں کہ اس کی ظاہری غیرت ایک آڑ تھی۔ جس کے پیچھے وہ اپنی اصل حالت دوسرے لوگوں کی نظروں سے یا خود اپنی ہی نظروں سے چھپاتا ہوگا۔ اس کی وہ نفرت جو وہ الہٰی اور پاک چیزوں سے رکھتا تھا اس پردہ تلے چھپی ہوئی تھی۔ اب وہ سردار ہونے کی حیثیت  سے لوگوں کی طرف مخاطب ہوکر ایسے کام کو جو خدا کی عزت اور بزرگی کو ظاہر کرنے والا تھا۔ اور جس نے ایک آدمزاد کے بد ن اور روح کو بحال کیا جس نے بھاری بندھنوں اور شیطان کی سخت زنجیروں کو توڑڈالا تھانا جائز بتاتا ہے۔

آیت نمبر ۱۵،۱۶۔جنابِ مسیح نے اسے جواب میں کہا کہ اے منافقو کیا ہر ایک تم میں سے سبت کے دن اپنے بیل یاگدھے کو تھان سے کھول کر پانی پلانے نہیں جاتا۔ پس کیا یہ واجب نہ تھا کہ جو آلِ ابراہیم کی بیٹی ہے جس کو شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھا تھا سبت کے دن اس بند سے چھڑائی جاتی۔

ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنابِ مسیح اس جگہ یہ دعویٰ کرتےہیں کہ میں نے سبت بالکل نہیں توڑا لینگی کی تفسیر میں ذکر ہے کہ لائٹ فٹ اور دیگر عالموں نے ثابت کیا ہے کہ سبت کے روز جانوروں کو پانی پلانے کے لئے جانا یہودیوں کےدستور کے مطابق روا تھا۔ اب جو بات حیوانوں کے لئے روا تھی وہ کیونکر انسان کے لئے نارواہوسکتی تھی ؟ ٹرنچ صاحب فرماتے ہیں کہ گویا جناب ِ مسیح اپنے جواب کے ذریعہ ان سے یہ کہہ رہا ہے۔ کہ "تم خود سبت کے بہت پابند نہیں ہو اور جہاں دیکھتے ہو کہ کسی کام کے نہ کرنے سے تمہارا نقصان ہوتا ہے وہاں سبت کے خیال کو بہت مداخلت کرنے میں نہیں دیتے۔ مثلاً تمہارے بیل اور گدھے تمہاری نظر میں ایسے بیش قیمت ہیں کہ تم ان کے متعلق سبت کے روز کی چندا پروا نہیں کرتے بلکہ ان کو پانی پلانے لے جاتے ہو۔ کیاان کو کھولنا اور لے  جانا ایک انسانی روح کے آزاد کرنے اور اس کے بند کھولنے سے بہتر اور زیادہ بیش قیمت  ہے ؟خواہ تم سبت کی پابندی کا کیسا ہی دعویٰ کرو پر یاد رکھو کہ تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے جانوروں کو کھولتا اور لے جاتا ہے اور کبھی خیال نہیں کرتا کہ سبت ٹوٹ گیا ہے۔ پر تعجب ہے کہ ایک انسان کو جو اٹھارہ برس سے شیطان کے بند میں گرفتار ہے رہا کرنا تمہارے نزدیک سبت کو توڑتا "ہے۔ تم اپنے جانوروں کے کھولنے اور باندھنے میں کتنی دیر لگاتے ہو اور اپنا کام کرتے رہتے ہو۔ مگر میں اپنے کلام کے وسیلے ایک دم میں زنجیروں کو کھول دیتا ہوں پر تم پھر بھی اس پر اعتراض کرتے ہو۔

اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ انسان میں اور باقی حیوانات میں زمین وآسمان کا فرق ہے گو انسان اپنے جسم کے اعتبار سے ایک طرح کی مشارکت بھی ان کے ساتھ رکھتا ہے۔پرتا ہم اشرف المخلوقات ہے (مقابلہ کرو انجیل شریف خط اول کرنتھیوں 9باب 9آیت اور زبور شریف 8باب 8آیت )۔ما سوا اس کے یہ بھی یادر کھنا چاہئیے کہ یہ عورت نہ صرف بنی آدم میں شامل ہونے کے سبب سے جانوروں پر فوقیت رکھتی تھی بلکہ آل ابرہیم کی بیٹی بھی تھی۔ اس رشتے کے متعلق بعضوں کا يہ خیال ہے اس سے صرف یہ مراد ہے کہ وہ عورت برگزیدہ قوم میں شامل تھی۔ کہ اس بیان سے صرف اس کا جسمانی تعلق جو وہ حضرت ابراہیم کی اولاد کے ساتھ رکھتی تھی ظاہر کیا گیا ہے۔ گو شفا پانے کے بعد وہ ایمان کے لحاظ سے بھی حضرت ابراہیم کی بیٹی بن گئی۔ مگر بعض کی رائے ہے کہ ابراہیم کی بیٹی کہنے سے جنابِ مسیح اس کے ایمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اور اس کے ثبوت میں وہ یہ کہتے ہیں کہ (1)جنابِ مسیح نے ایک مرتبہ بھی اس کے ایمان کی نسبت  سوال نہیں کیا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایمان پہلے ہی سے موجود تھا۔(2)اور کہ اس کا معجزے کے بعد فوراً خدا کی بڑائی کرنا اس کی دیندار انہ طبعیت پر دلالت کرتا ہے۔(3)کہ اس کوکوئی اس قسم کی بات نہیں کہی گئی "تیرے گناہ معاف ہوئے "۔

شیطان نے اٹھارہ برس سے باند ھ رکھا تھا۔ ان لفظوں سے جیسا ہم اوپر بتا آئے ہیں ہی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے مولا اس عورت کی کمزوری کوشیطان کے حملہ سے مربوط کرتا ہے ۔ پر اس کے ساتھ یہ ماننا ناممکن نہیں کہ جسمانی طاقت کے کافور ہوجانے پر بھی ایمان کا شعلہ اس عورت کے دل میں جلتا رہا۔

نصیتحیں اور مفید اشارے

1۔اس معجزے میں عورت کی بیماری جس کی نسبت مسیح نے فرمایا کہ اسے شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھا ہے۔ اس قید اور اسیری کی علامت ہے جس میں انسانی روح گرفتار ہے اور اس کی شفا نجات اور رہائی کی علامت ہے۔

2۔اس معجزے کی حقیقت عبادت خانہ کے سردار کی گواہی سے ثابت ہے۔ وہ اس کے وقوع سے ناخوش ہوتا ہے پر اس کی حقیقت کا انکار نہیں کرتا ۔

3۔دکھیوں کے لئے عمدہ آرام گاہ وہی جگہ ہے جہاں خدا کی عبادت کی جاتی او رکلام سنایا جاتا ہے۔

4۔شیطان کا خطرناک غلبہ جو وہ روح اور جسم پررکھتا ہے ہم کو اس جگہ نظر آتا ہے۔

5۔پھر سبت کو ماننے کا نمونہ اس جگہ موجود ہے ۔ خداوند جیسا چاہئے ویسا سبت کو مانتا تھا۔

6۔جو لوگ خدا کو نہیں جانتے ان کی نظر میں محبت کے جلالی نظارے کچھ وقعت نہیں رکھتے ہیں۔ وہ عبادت خانہ کے سرداروں کی مانند ہیں۔

7۔منافقت ۔ مسیح یہاں ریاکاری پر طرح طرح سے فتوے لگاتے ہیں (1)عقل کے دربار میں "کیا ہر ایک تم میں سے سبت کے دن ۔۔۔وغیرہ "تم اپنے جانوروں کی بہبودی کے لئے اپنی عقل کو کام میں لاتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ حیوانوں کی زندگی کے لئے ضرور ہے کہ تم ہر روز ا ن کوپانی پلاؤ۔ لہذا خواہ سبت ہی کیوں نہ ہو تم انہیں پانی پلانے لے جاتے ہو۔ مگر انسان کے بارے میں اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتے اور نہیں سوچتے کہ وہ جانوروں سے بہتر ہے ۔ (2)ضمیر کے دربار میں ان پر فتوےٰ لگاتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ کیا واجب نہ تھا "وغیرہ انسان جو خدا کی صورت پر بنا ہے ۔ اس کا بچانا تمام فرائض سے بڑا فرض ہے ۔ (3)ہمدردی کے دربار میں ان پر فتوے ٰ لگاتے ہیں۔ تم اپنے جانوروں سے کیسی ہمدردی کرتے ہو پر ابراہیم کی بیٹی سے کچھ ہمدردی نہیں رکھتے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (18439)
Comment function is not open
English Blog