en-USur-PK
  |  
23

ایک کوڑھی کو پاک صاف کرنا

posted on
ایک کوڑھی کو پاک صاف کرنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

10-Miracle   

Jesus Cleanses a Leper

 Matthew 8:1-4 Mark 1:40-45 Luke 5:12-14



ایک کوڑھی کو پاک صاف کرنا

۱۰ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۸باب ۱تا۴

مرقس۱باب ۴۰تا ۴۵ اور لوقا ۵باب ۱۲تا ۱۴

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

آیت نمبر ۱۔جب سیدنا مسیح اس پہاڑ سے اترے تو بہت سی بھیڑ ان کے پیچھے ہولی۔

ٹرنچ صاحب کے مطابق یہ معجزہ پہاڑی وعظ کے بعد سرزد ہوا۔لیکن بعض مفسروں کے خیال میں حضرت مرقس اور حضرت لوقا کی عبارتوں کے قرینے سے ایسا معلوم ہوتا ہے (گوپختہ طور پر نہیں کہہ سکتے )کہ یہ معجزہ پہاڑی خطبے سے پہلے واقع ہوا۔ پہلی رائے زیادہ قابل تسلیم معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے مطابق ظاہر ہوتاہے کہ اس نے اپنی تعلیم کی صحت اور صداقت کو ان معجزوں کے وسیلے ثابت کیا جو آپ نے پہاڑی وعظ کے بعد کر دکھائے حضرت لوقا ہم کوبتاتے ہیں یہ معجزہ ایک شہر میں ہوا جو غالباً  گلیل کا کوئی شہر تھا۔

آیت نمبر ۲۔اور دیکھو ایک کوڑھی نے پا س آکر جنابِ مسیح کو سجدہ کیا اورکہا اے مولا اگر آپ چاہیں تو مجھے پاک صاف کرسکتے ہیں۔

ایک کوڑھی نے۔ اس بیماری کی نسبت  غور کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کئی باتیں توجہ طلب ہیں۔

ایک مصنف بیان کرتا ہے کہ یہ بیماری مصریوں اور اسرائیلیوں میں عام تھی مصر کی آب وہوا اس بیماری کے حق میں مضہر تھی۔ اور ممکن ہے کہ سٹریبوا میسٹیسن کے گمان کے مطابق اسرائیلیوں کے اجسام میں جو مصر میں بہت دن رہے تھے اس بیماری کی رغبت پیدا ہوگئی ہو۔

کوڑھ مختلف اقسام کےہوتے ہیں۔ اور جو قسم بنی اسرائیل کے درمیان پائی جاتی تھی وہ سفید رنگ کی ہوتی تھی۔ اور وہ ایک چھوٹے سے داغ یا آماس سے شروع ہوتی تھی وہ پہلے جلد سے ذرا نیچے دکھائی دیتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد بال سفید ہونے اور داغ پھیلنے اور کچا چمڑہ دکھائی دینے لگ جاتا تھا۔ شدید بعض حالتوں میں جا بجا بلکہ تمام جسم پر کھڑیا مٹی کی سی سفیدی نمودار ہوجاتی تھی۔ اور بعض حالتوں میں بال اور ناخن گرجاتے تھے بلکہ دماغی قوتوں میں بھی فرق آجاتا تھا اور بدبودار پیپ بالوں پر جمع ہوجاتی او رناک سے بہ نکلتی تھی پر یہ ضروری بات نہیں کہ یہ تمام علامتیں اس کو ڑھ میں پائی جاتی ہوں جس کا ذکر بائبل مقدس میں آتا ہے۔

گو کئی پشتوں تک یہ بیماری پیچھا کرتی تھی تاہم یہ ثابت نہیں کہ وہ متعدی بیماری تھی۔(ٹرنچ )پس کوڑھیوں سے دور رہنے کے متعلق جو ہدائتیں پائی جاتی ہیں۔ اور ان کا خود ناپاک ناپاک کہہ کر پکارنا اس سبب سے نہ تھا کہ اوروں کو ان کی بیماری لگ جانے کا خطرہ تھا۔ بلکہ اس سبب سے کہ وہ ناپاک ہوجاتے تھے۔ جس طرح مردہ بدن یاد یگر ممنوعہ اشیاءکے چھونے سے ناپاک ہوجاتے تھے۔کوڑھ گویا ایک زندہ موت تھی جو کوڑھیوں کے ننگے سروں پھٹے ہوئے اور ڈھنپے ہوئے لبوں سے ظاہر ہوتی تھی۔ (توریت شریف کتاب ِ احبار 13اور 14باب)

یہ بیمار ی گناہ کی بدی کی علامت تھی۔ لوگ اس کے چھونے سے ناپاک ہوجاتے تھے۔ بعض  نے اس پر یہ بحث کی ہے کہ ان کو چھونے کی ممانعت صرف سینٹیری یعنی حفظان صحت کے اصول پر کی گئی تھی۔ اور نہ کہ اس لئے کہ یہ بیماری گناہ کی برائی اور بدی کی علامت تھی وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ بیماری متعدی تھی۔

اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ  متعدی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ کیونکہ جہاں حضرت موسیٰ کی شریعت رائج نہ تھی وہاں کوڑھیوں سے اس قسم کی جدائی اختیار نہیں کی جاتی تھی جیسی کہ بنی اسرائیل میں کی جاتی تھی ۔ مثلاً نعمان آرامی فوجوں پر حکمران تھا(بائبل مقدس 2سلاطین 5باب 1آیت )۔

اور پھر ان جگہوں میں بھی جہاں موسوی شریعت کا عملدرآمد تھا یہ قوانین پر دیسی اور مسافروں پر چسپا ں نہیں کئے جاتے تھے۔ اگر یہ بیماری متعدی سمجھی جاتی تو ان کو قیود سے آزاد کرنا ان کے اور بنی اسرائیل دونوں کے لئے غیر مفید ہوتا ماسوائے اس کے کاہنوں کو چھونا اور امتحان کرنا پڑتا تھا۔ مگر یہ مرض متعدی سمجھا جاتا تو ان کو چھونے کی کیوں اجازت دی جاتی۔ اور پھر رسمی ناپاکی جو اس کے چھونے سے پیدا ہوتی تھی۔ اس کے سب رسوم ایسے تھے جیسے موت کے ۔پھر بیماری جب سارے بدن میں پھیل جاتی تھی تومجزوم صاف سمجھا جاتا تھا (توریت شریف کتاب احبار 13باب 12تا17آیت)

یہ بیماری لاعلاج تھی۔ انسان کی حکمت کی ادویات سے اچھی نہیں ہوتی تھی۔ مگر کبھی کبھی کسی شخص میں یا اس کی اولاد میں بخوبی جاتی رہتی تھی۔

ان ساری باتوں سے بخوبی روشن ہے کہ کوڑھ علامتی طور پر گناہ کی ناپاکی اور گھنوناپن کو ظاہر کرتا تھا۔ اور اس بیماری سے بڑ ھ کر او رکوئی بیماری گناہ کی عمدہ علامت نہیں ہوسکتی تھی ۔

سجدہ کیا۔ اس سے ہم یہ دعوے نہیں کرسکتے کہ اس نے اسے خدا سمجھ کر سجدہ کیا۔بلکہ یہ کہ وہ آداب بجالایا اور بڑی عاجزی اور تعظیم سے اس کو سلام کیا۔ تینوں اناجیل کے مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کیا کیا ۔ بڑی سرگرمی سے منت کرتا ہوا آیا۔ گھٹنوں پر گرا سجدہ کیا اور پھر منہ کے بل گر پڑا ۔

اور کہا اے خداوند ۔سیپٹوایجنٹ میں لفظ خداوند یہواہ کے لئے استعمال ہوا ہے اور خطوط میں یہ لفظ مسیح کے لئے آیا ہے جہاں اس کے وسیلے اس کی الوہیت کا اقرار کیا جاتا ہے ۔ لیکن یونانی میں تعظیم کے لئے آتا ہے ۔ اورمساوی ہمارے جناب یا صاحب کے ہوتا ہے۔(حضرت متی 13باب 27آیت ،21باب 30آیت ،27باب 63آیت )مگر جو بزرگی اس لفظ کے استعمال سے متکلم کی طرف سے مخاطب کوی دی جاتی تھی وہ عبارت کے تعلق  اور قرینے سے ثابت ہوجاتی تھی۔

اگر آپ چاہیں تو مجھے پاک صاف کرسکتے ہیں۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ اگر آپ کرسکتے ہیں تو مجھے پاک صاف کریں۔ اسے اس کی قدرت پر شک نہیں تھا۔ اس کو خیال اس کی رضا مندی  کا تھا۔ وہ اسی طرح دعا کرتا ہے جس طرح ان برکتوں کے لئے کرنی چاہیے جن کے لئے کوئی صاف وعدہ خدا کے کلام میں نہیں پایا جاتا۔ مگر ہم اکثر روحانی برکتو ں کے لئے بھی یہی کہا کرتے ہیں۔ اگر تیری مرضی ہوحالانکہ ان کی نسبت اس کی رضا مندی پر کسی طرح  کا شک نہیں۔

پاک صاف کرسکتا ہے ۔ و ہ نہیں کہتا کہ اگر چاہے تومجھے شفادے سکتا ہے۔ وہ پاک وصاف کرنے کو شفا سمجھتا ہے۔کیونکہ اس کی بیماری غلاظت او رناپاکی کی صورت رکھتی تھی۔ اور اس نے اس کو رسمی شریعت کی رو سے ناپاک بنادیا تھا۔ اس شخص کا ایمان مضبوط تھا۔

آیت نمبر ۳۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا اور کہا میں چاہتا ہوں توپاک صاف ہو۔وہ فوراًکوڑھ سے پاک صاف ہوگیا۔

جناب ِ مسیح نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا۔ اس سے دیکھنے والے متعجب ہوئے ہوں گے کیونکہ کوڑھی کو چھونا گویا رسمی ناپاکی میں گرفتار ہونا تھا۔مگر مسیح جب چھوتا ہے تو وہ ہماری ناپاکیوں میں گرفتار نہیں ہوتا بلکہ اپنی پاکیزگی سے ہم کو پاک کرتاہے۔ اس فعل سے البتہ رسمی شریعت کی حرف شکنی ہوئی۔ مگر اس کی روح نہیں ٹوٹی (احبار 13باب 4آیت ،گنتی 5باب 2آیت )لوگوں کو کوڑھیوں کی مس کی ناپاکی سے بچانے کے لئے یہ ہدائت کی گئی تھی کہ وہ انہیں جب تک ان کی بیماری آخری درجہ تک نہ پہنچنے علیحدہ رکھیں۔ اس وقت تک کوڑھیوں میں مردوں میں کچھ فرق نہ تھا۔ اور جب وہ پبلک میں آتے تھے توناپاک ناپاک پکارتے ہوئے آتے تھے۔ مگر سیدنا مسیح کے حق میں یہ بات اور معنی رکھتی تھی۔وہ شریعت کا خداوند ہے ۔ شریعت کا بنانے والا ہے۔اور وہ اس الہٰی اور ازلی رحمت کے قانون کی پیروی کرتا ہے جو لکھی ہوئی شریعت کی نسبت بزرگ تر اور قدیم تر قانون ہے۔ اسی طرح ایلیاہ اور الیشع مردہ کے چھونے سے پرہیز نہیں کرتے (بائبل مقدس 1سلاطین 17باب 21آیت ،2سلاطین 4باب 34آیت )۔

اس کا کوڑھی کو چھونا او رناپاک نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ ہماری انسانیت کو اپنے اوپر لے کر ناپاک نہیں ہوتا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ پاک صاف ہو ۔یہ الفاظ وہی ہیں جو اس کی درخواست میں شامل تھے۔ اس کی دعا کا جواب اس کی درخواست میں داخل تھا۔ قبول ہونے والی دعائیں اسی قسم ہوتی ہیں۔ ان میں وہی باتیں مانگی جاتی ہیں جو باپ کی مرضی کے مطابق ہوتی ہیں اور جو وہ ہم کو دینے کے لئے خوش ہے۔ پرانے عہد میں اور نئے میں بھی مسیح کو چھوڑ کر باقی سب ہمیشہ معجزے کی قدرت اور جلال کو خدا سے منسوب کرتے ہیں۔ مگر مسیح اکیلا اس قسم کی عبارت استعمال کرتا ہے "میں چاہتا ہوں کہ تو پاک صاف ہو۔"میں حکم دیتا ہوں کہ تو اس میں سے نکل آ"میں تجھے کہتا ہوں ۔اٹھ "ان معاملات پر بہت بحث ہوئی ہے کہ آیا وہ جنہوں نے جسمانی شفا پائی ،روحانی برکتوں سے بھی بہرہ ور ہوئے ؟یا نہیں ۔کئی لوگوں کی نسبت یہ بات صاف ہے۔ کہ انہوں نے روح کی شفا نہیں پائیں۔لیکن کئی ایک نے جسمانی شفا  کے وسیلے اس کی معافی بخش قدرت کو بھی دیکھا اور گناہوں کی مغفرت سے مالا مال ہوئے۔لیکن اس کوڑھی کی نسبت ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ آیا اس نے روحانی نعمت پائی یا نہ پائی ۔ او ریہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شروع میں ہمارے خداوند خوشی سے ایمان کی دعاؤں کے جواب میں جلد جلد معجزے دکھا یا کرتا تھا۔ لیکن جب لوگوں نے ایمان چھوڑدیا تو ایمان کی کمی کے سبب سے اس کے پچھلے معجزات  دیر دیر میں ہونے لگے ۔(حضرت مرقس 6باب 5آیت ،حضرت متی 13باب 58آیت )لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کوڑھی کی دعا کے سننے میں ذرا دیر نہیں کرتا جب گنہگار دل سے چلاتا  ہے تو جواب فوراً آتا ہے ۔"میں چاہتا ہوں کہ تیرے گناہ دورکئے جائیں۔(بائبل مقدس 1سمویئل 12باب 13آیت)۔

آیت نمبر ۴۔مسیح نے اس سے کہا خبردار کسی سے نہ کہنا بلکہ جاکر اپنے آپ کو کاہن (امام اعظم )کو دکھا اور جو نذر موسیٰ نے مقرر کی ہے اسے گذران تاکہ ان پر گواہی ہو۔

خبردار کسی سے نہ کہنا۔ مقابلہ کریں حضرت مرقس کے الفاظ کےساتھ جن سے ظاہر ہوتاہے کہ  بڑے تشدد کے ساتھ اس کو تاکید کی گئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح اس جگہ اس کوڑھی کو منع کرتے ہیں کہ وہ اس کی خبر کسی کو نہ دے۔ اس ممانعت کا کیا سبب ہے ؟

1۔اس لئے کہ وہ یروشلم میں جاکر اپنے تیئں دکھانے میں دیر نہ کرے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ قل اس کے کاہن معجزے کے کا حال سنیں۔ وہ شخص ان کے پاس جائے کیونکہ اگر دیر کرتا تو ممکن تھا وہ رشک کے مارے اس کے پاک ہونے کا انکار کرتے اورکہتے کہ وہ اچھا نہیں ہوا۔

2۔شائد اس لئے کہ اس شخص کا ذاتی نقصان نہ ہو۔ یعنی لوگوں کو اس معجزے پر بہت سا چرچہ اور طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے دیکھ کر اس کی باطنی شکر گزاری میں کسی طرح کا فرق نہ آجائے۔

3۔حضرت متی ہم کو بتاتے ہیں (حضرت متی 12باب 15تا 21آیت مقابلہ کرو ساتھ خط فلپیوں 2باب 6تا 7آیت اور خط عبرانیوں 5باب 5آیت اور حضرت یوحنا 8باب 36آیت )۔ کہ حضرت یسعیاہ  کی نبوت کے مطابق (دیکھو بائبل مقدس صحیفہ حضرت یسعیاہ 42باب 2آيت )اس کی خدمت ہر طرح کے شو ر وغوغا سے آزاد ہونی چاہیے تھی۔

4۔وہ صرف اسی لئے نہیں آیا تھا کہ حکیم بنے یا اچنبے کرنے والا سمجھا جائے۔بلکہ روحوں کو اپنے مکاشفے اور اپنے نمونہ اور اپنی موت کے وسیلے بچانے کو آیا تھا۔(کمیبرج سریز لوقا ) مگر خطرہ تھاکہ اس کے معجزات کی خبر سن کر لوگوں میں ایک طرح کا اشتعال پیدا ہو۔ اور وہ خیال کریں کہ وہ ان کے خیالات کے مطابق اپنی بادشاہی قائم کرنے پر ہے (حضرت یوحنا 6باب 14آیت )او ریہ بھی ممکن تھاکہ وہ ان باتوں کے سبب سے یہودی سرداروں اور رومی حکام کو مخالفت پر برانگیختہ کرتے اور اس کی تعلیم کی آزادی میں منمل ہوتے ۔ اور ہم دیکھتے ہیں (حضر ت مرقس 1باب 45آیت بمقابلہ حضرت لوقا 5باب15آیت )کہ کوڑھی نے اس کے حکم کو نظر انداز کرکے یہ نتیجہ واقعی پیدا کردیا ۔(حضرت مرقس 5باب 19آیت ،حضرت لوقا 8باب 29آیت )میں جو احکام پائے جاتے ہیں وہ قاعدہ کلیہ کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ خاص حالتوں پر دلدالت کرتے ہیں۔ پس اگر ہم ان جگہوں میں یہ پڑھتے ہیں کہ مسیح خود شہرت کا حکم دیتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ جھیل کے جنوب مغرب میں یہ خطرہ نہ تھا کہ لوگ انہیں جبراً بادشاہ بنائیں بلکہ وہاں اور قسم کی غلطیاں اس کی نسبت رائج تھیں  جن کا سدھارنا اور اصلاح کرنا ضروری تھا۔

جاکر اپنے آپ کو کاہن (امام اعظم )کو دکھا۔ زور "دکھا " پر ہے ۔ کیونکہ کاہن کے پاس فقط صحت کی خبر بھیجنا کافی نہ تھا۔"دیکھنے " کے سوائے اور کوئی بات کاہن کو قائل نہیں کرسکتی تھی۔ اس بات کے علم کے لئے کاہن کس طرح کوڑھیوں کے پاک صاف ہونے کا اعلان کیا کرتے تھے۔ (توریت شریف کتاب ِ احبار 14پڑھنا چاہیے)۔

اور جونذر حضرت موسی نے مقرر کی ہے (احبار 14باب 4تا 10آیت )میں اس کا ذکر آتا ہے اور اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کیا خرچ اس موقع پر اٹھانا پڑتا تھا۔

تاکہ ان پر گواہی ہو۔ لوگوں پر نہ کہ کاہنوں پر۔ کیونکہ انہیں تو نذر گذراننے سے پہلے ہی ماننا پڑتا تھا۔ کہ آدمی پاک صاف ہوگیا ہے ۔ لیکن لوگوں پر قربانی دینے کے بعد ظاہر ہوتی تھی کہ فلا ں شخص جو پہلے کوڑھی تھا اب پاک صاف ہوگیا ہے ۔ پس اس اشخاص کا قربانی چڑھانا لوگوں کے لئے اس کی صحت کی گواہی تھا۔ ماسوائے اس کے موسوی شریعت کی پابندی بھی ضروری تھی۔کیونکہ مسیح کے مخالف اب اسے اس قصور سے ہتم کرنےلگ گئے تھے۔ٹرنچ صاحب بیان کرتے ہیں کہ شائد یہ مقصد بھی ہوگا کہ یہ گواہی بھی ان کو ملزم ٹھہرائے یعنی ان کی بے ایمانی پر بھی گواہی دے کہ وہ معجزے دیکھتے ہیں اور پھر ایمان لاتے۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

1۔چار سوال پوچھنے کے قابل ہیں۔ اول کیامسیح ہم کو بچاسکتے ہیں۔دوئم کیا مسیح ہم کو بچانا چاہتے ہیں۔ سوم کیاہم کو بچنے کی ضرورت ہے ،چہارم او رکیا ہم بچنا چاہتے ہیں۔ شک اگر ہے تو پچھلے سوال پر ہے۔

2۔جو کچھ مسیح نے تمہارے لئے کیا ہے اس کی منادی شور مچا کر کردیا نہ کرو۔ جو لازمی امر ہے سو یہ ہے کہ اسے خداکے حکموں کے مطابق چل کر ثابت کرو۔ یہ از حد ضرور ی ہے۔

3۔کوڑھی زندہ ہوتاتھا مگر مردہ کی مانند سمجھا جاتا تھا ۔ کیونکہ اس کی بیماری کا نتیجہ موت تھا۔ اس کا مرض زندگی کے تمام میٹھے چشمے کو زہر یلا بناتاتھا۔ وہ جسم کو رفتہ رفتہ گلا دیتا تھا کہ حتیٰ کہ ایک ایک عضو یکے بعد دیگرے گرنے لگ جاتا تھا۔ حضرت ہارون اس کا نقشہ خوب کھینچتے ہیں۔(توریت شریف کتاب ِ گنتی 12باب 12آیت )یہ بیماری لاعلاج تھی۔ یعنی آدمی اس کا علاج نہیں کرسکتا تھا۔حضرت داؤ د گناہ کی بیماری کو کوڑھ کی مانند سمجھتے تھے۔ کیونکہ جب وہ کہتے ہیں کہ مجھے زوفا سے دھو اور میں پاک ہوجاؤں گا (زبور شریف 51آیت 7)تووہ خارجی سے باطنی کی طرف دیکھتا ہے یعنی سچے لہو کی طرف جو چھڑکا جاتا ہے دیکھتا ہے ۔ پس وہ یہاں اپنے تیئں روحانی کوڑھی تصورکرتا ہے ۔ وہ ایسا خیال کرتا ہے کہ اس کا گناہ (جب کہ وہ اس گناہ میں زندگی بسر کرتا تھا )موت تک پہنچانے والا گناہ تھا۔ اور محسوس کرتا ہے کہ میں خداسے پرلے درجہ کی جدائی رکھتاہوں لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ کامل طور پر خدا کے نزدیک لایا جاؤں۔(ٹرنچ) بعض حالتوں میں لگ جانے والی بیماری تھی۔ دکھ پیدا کرنے والی بیماری تھی۔

4۔مسیح کی مسیحائی کا سب سے بڑا نشان یہ تھا کہ وہ کوڑھیوں کو پاک صاف کرتا تھا۔

5۔اس کوڑھی کو دعا سچی دعا کا نمونہ ہے سچی دعا فروتن ایمان سےمانگی جاتی ہے اور جواب کو پروردگار کی مرضی پر چھوڑتی ہے ۔

6۔دیکھو گنگار کا اورمسیح کا باہمی تعلق کیا ہے۔ اور کیا ہونا چاہئیے گنہگار مسیح کے پاس لاعلاج بیماری کے ساتھ آتا ہے ۔ سرگرم منت کے ساتھ آتا ہے ۔ جگے ہوئے ایمان کے ساتھ آتا ہے ۔ مسیح اس کو زور آوربازو کے ساتھ ملتا ہے۔ رحم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ملتا ہے۔ ایک تاکیدی حکم کے ساتھ ملتا ہے ۔ خواہ وہ حکم بولنے کا ہو یا خاموشی کا۔

7۔حکم ماننا قربانی چڑھانے سے بہتر ہے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (19380)
Comment function is not open
English Blog