en-USur-PK
  |  
16

تثلیث فی التوحید

posted on
تثلیث فی التوحید

Trinity

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

تثلیث فی التوحید

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز

           

            واضح ہو کہ خدا کی ذات کے متعلق تثلیث فی التوحید اور توحید فی التثلیث  کا ذکر  الہامی کتابوں کے درمیان پایا جاتا ہے ۔

          بعض لوگ اس سے خفا ہوتےہیں اور کلام کی تحقیر کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسی بات پر چونکنا تو مناسب ہے تاکہ ہم شرک کی طرف نہ کھچ جائے لیکن غور نہ کرنا کہ یہ کیا بات ہے اور مطلب ہے کہ یہ بھی بے وقوفی ہے ۔

          اس معاملہ میں دو باتوں پر سوچنا مناسب ہے اول آیا کہ بائبل  نے تثلیث  کو کس طرح پیش کیا ہے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تثلیث کے پیش کئے جانے کے طور پر ذرا بھی نہیں سوچتے ۔ تثلیث  کے نام سے گھبراتے ہیں اور یہی  سبب ہے کہ  ان کے بیان میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور یہ بہت نامناسب بات ہے کہ کسی عقیدہ کو خوب  دریافت  کئے بغیر  اس کو رد کیا جائے لہذا پہلے ہم یہ دکھلاتے ہیں کہ  تثلیث  کیونکر  اور کس صورت میں ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے۔  اس کے بعد اپنے دلائل  بھی ہم پیش کرینگے بائبل میں تثلیث  کا ذکر ہے اس کا خلاصہ اگر کوئی دیکھنا چاہے تو اتھانا سیس  کے عقیدہ کا پہلا حصہ دیکھ لے جو یہ ہے :

          عقیدہ جامعہ یہ ہے کہ ہم تثلیث  میں واحد خدا کی اور توحید میں تثلیث  کی پرستش کریں۔

          نہ اقانیم کو ملائیں اور  نہ ماہیت کو تقسیم کریں۔

          کیونکہ باپ ایک اقنوم بیٹا ایک اقنوم اور رو ح القدس ایک اقنوم ہے مگر باپ بیٹے اور روح کی الوہیت ایک ہی ہے جلال برابر عظمت یکسا ں۔

          جیسا باپ ہے ویسا ہی بیٹا اور ویسا ہی روح القدس ہے ۔ باپ غیر مخلوق بیٹا غیر مخلوق اور روح القدس غیر مخلوق ہے باپ غیر محدود بیٹا غیر محدود اور روح القدس غیر محدود ہے ۔

          باپ ازلی بیٹا ازلی اور روح القد س ازلی ہے ۔

          تاہم تین ازلی نہیں بلکہ ایک ازلی  اسی طرح تین غير محدود نہیں اور نہ تین غیر مخلوق بلکہ ایک غیر مخلوق اور ایک غیر محدود ہے ۔

          یوں ہی باپ قادر مطلق بیٹا قادر مطلق  اور روح القدس  قادر مطلق ، تو بھی تین قادر مطلق نہیں بلکہ ایک قادر مطلق ہے ۔

          ویسےہی باپ خدا بیٹا روح القدس خدا تس پر بھی تین خدا نہیں بلکہ ایک خدا ہے ۔

          اسی طرح باپ خدا وند بیٹا خداوند اور روح القدس خداوند تو بھی تین خداوند نہیں بلکہ ایک ہی خداوند ہے ۔

          کیونکہ جس طرح  مسیحی عقیدہ سے ہم پر فرض ہے کہ ہر ایک اقنوح کو جداگانہ خدا اور خداوند مانیں اسی طرح دین جامع سے ہمیں یہ کہنا منع ہے کہ تین خدا یا تین خداوند ہیں۔

          باپ کسی سے مصنوع نہیں نہ مخلوق نہ مولود ہے ۔

          بیٹا اکیلے باپ سے ہے مصنوع نہیں نہ مخلوق لیکن مولود ہے ۔

          روح القدس باپ اور بیٹے سے ہے نہ مصنوع نہ مخلوق نہ مولود لیکن صادر ہے پس ایک باپ ہے نہ تین باپ ایک بیٹا ہے نہ تین بیٹے ایک روح القدس ہے نہ تین روح القدس ۔

          اور اس تثلیث میں ایک دوسرے سے پہلے یا پیچھے نہیں ایک دوسرے سے بڑا یا چھوٹا نہیں بلکہ  بالکل تینوں اقانیم ازل سے برابر یکساں ہیں اس لئے سب باتوں میں جیسا کہ اوپر بیان ہوا تثلیث میں توحید کی اور توحید میں تثلیث  کی پرستش کی جائے ۔

          یہ پہلا حصہ ہے مقدس اتھانا سیس کے عقیدہ کا جو ہمارے ایمان کا ایک بڑا حصہ ہے اور بائبل کے مختلف مقاموں سے چن کر جمع کیا گیا ہے ۔

اب تین فکر واجب ہیں

          پہلا فکر اس اعتقاد پر بلحاظ بائبل  اور کلیسیا کے کیا جاتا ہے اور اس فکر میں چار باتیں سوچنا ہے۔

(۱)یہ مضمون جو اوپر بیان ہوا متفق علیہ ہے سب عیسائیوں کا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو فروعات کی بات ہوتا کہ جس کا جی چاہے اس کو قبول کرے اورجس کا جی چاہے قبول نہ کرے بلکہ یہ ایک ایسی اصولی بات ہے جس کو سب مانتے ہیں یعنی سب فرقے تثلیث کے قائل ہیں لہذا مسیحی دین کی بنیاد یہ ہے اور تثلیث  کے نام پر سب بپتسمہ پاتے ہیں۔

(۲)یہ بات بھی ظاہر ہے کہ یقیناً  بائبل یوں ہی سکھلاتی ہے یعنی کسی آدمی کے ذہن کا اختراع نہیں ہے جسے ہم ایک چھوٹی سی بات سمجھ کر چھوڑدیں۔

(۳)یقیناً بائبل کے جتنے وعدہ ہیں اسی عقیدہ پر موقوف ہیں۔ اگریہ ہمارے ہاتھ سے جاتار ہے تو پھر ہم ان برکات کی امید نہیں رکھ سکتے جو بائبل میں مذکور ہیں۔

(۴)اس عقیدہ کا انکار بائبل اور اہل بائبل سے جدائی کا موجب ہے ۔ اگر ہم اس کو نہیں مانتے تب بائبل سے بالکل جدائی ہوتی ہے اور ان سے بھی جن کے وسیلہ سے یہ بائبل دی گئی ہے ۔

دوسرا فکر اس عقیدہ پر بلحاظ نفس عقیدہ کے کیا جاتا ہے

(۱)اس عقیدہ میں تثلیث  کا علاقہ الوہیت کی ذات میں دکھلایا گیا ہے نہ صرف صفات میں ۔ یعنی یہ بات نہیں ہے کہ  ذات الہیٰ کا نام باپ سے اور بیٹا و روح القدس صفات ہیں۔

(۲)تین اقنوم بیان ہوئے ہیں ایک ہی ماہیت کے درمیان نہ تین ماہیتیں  لیکن تین شخص ہیں ماہیت  واحد کے اور اگرچہ ان میں تشخیص ہے تو بھی تین جداگانہ خدا نہیں ہیں۔

(۳)یہ تینوں شخص مخلوقیت اور مصنوعیت اور تقدم وتاخر اور خودی اور بزرگی سے الگ ہیں  اور غير محدود ہوکے قدرت وازلیت وابدیت  میں یکسا ں ہیں۔

(۴)بیٹا باپ سے بتلایا گیاہے مصنوع ومخلوق نہیں مگر مولود ہے اور معنی ولادت کے نہ عرفی ہیں لیکن فہم سے بالاتر ہیں اور تقدم وتاخر سے الگ ہیں۔

(۵)روح القدس باپ اور بیٹے سے بتلایا گیا ہے مگر مصنوعیت ،مخلوقیت اور مولودیت کے طور پر نہیں بلکہ اصدار کے طور پر ہے ۔

(۶)اور اس تثلیث  کی پرستش  میں عین واحد خدا کی پرستش بتلائی گئی ہے اور تین خدا بتلانے والے پر ملامت ہے جیسے منکر تثلیث  پر بھی ملامت ہے ۔

          پس کیا یہ بیان جو اوپر ہوا عقلی ہے کوئی بشری سے اسے سمجھ سکتا ہے ہر گز نہیں تب یو یقیناً  کسی آدمی کی عقل  سے نہیں نکلا اگر عقل سے نکلتا تو عقل میں آسکتا یہ خدا سے ہے جو عقل سے بالا ہے ۔

تیسرا فکر اس عقیدہ کے فہم کی طرف کیا جاتا ہے اس کے معلم کی ہدایت  کے لحاظ سے

          اس وقت یہ سوال ہے کہ یہ عقیدہ ہمیں سمجھا دو اور یہ سوال نہ اپنی عقل سے پیدا ہوا ہے نہ عقلائے جہان کے ذہن سے نہ کسی پادری کے علم سے بلکہ اس کی طرف سے پیدا ہوا ہے جس نے یہ عقیدہ سکھلایا ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے

          کہ یہ مسئلہ ادرا کی نہیں ہے بلکہ وجدانی ہے اور ادراک ووجدان میں بہت بڑا فرق ہے ۔ ادراک سے مراد وہ تصورات ہیں جو احاطہ عقل میں سما کر ذہن انسان میں منقش ہوسکتے ہیں  لیکن یہ تثلیث  کا بیان اس ذات کا بیان ہے جو احاطہ عقل سے نہایت  بلند وبالا ہے۔ سو اس کا ادراک ذہن میں طلب کرنا ہی  خلاف عقل ہے ۔ دیکھو ایوب پیغمبر کیا کہتا ہے (ایوب رکوع 11 آیت 7)کیا تو اپنی تلاش سے خدا کا بھید پا سکتا ہے یا قادر مطلق  کے کمال کو پہنچ سکتا ہے وہ تو آسمان سا اونچا ہے تو کیا کرسکتا ہے پاتال سا نیچا ہے تو کیا جان سکتا ہے ؟

          لیکن وجدان خدا کی طرف سے ایک انکشاف ہے انسان کی روح پر جس سے روح تسکین اور یقین اور ایک گونہ علم بھی پیدا ہوجاتا ہے یعنی یہ اعتقاد  اسی انکشاف سے روح پر منکشف ہوتا ہے تب روح اسے قبول کرتی ہے اور ذہن سجدہ کرتا ہے یہی سبب ہے کہ  سب خادمان دین اس اعتقاد کے طالبان فہم کو دعاؤں کے لئے  تاکید کرتے ہیں تاکہ اس حقیقی  معلم کی طرف رجوع کریں جو اپنے خاص بندوں پر ظاہر ہونے کی طاقت رکھتا ہے ۔

          دیکھو جب پطرس نے دوسرے اقنوم کا اقرار کیا کہ تو مسیح زندہ خدا کا بیٹا ہے  تو مسیح نے یوں فرمایا (انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع 16 آیت 17) میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کیا ۔

          رسول مقبول کہتا ہے کہ جو باتیں آنکھ اور کان اور عقل کے احاطہ سے باہر ہیں ان کو خدا نے اپنی روح کے وسیلہ سے ہم پر ظاہر کیا (خطِ اول اہل ِ کرنتھیوں رکوع 2 آیت 10)۔

          اور دوسرے مقام پر خداوند نے صاف کہہ دیا ہے (حضرت متی رکوع 11 آیت 25)کہ " اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند میں تیری تعریف کرتا ہوں کہ تو نے ان چیزوں کو داناؤ ں اور عقلمندوں سے چھپایا اور بچوں پر ظاہر کردیا۔ "

          داناؤں اور عقلمندوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو عقل پر نازاں ہیں اور مغرور ہیں اور الہام کی بہ نسبت  عقل پر زیادہ زور دیتے ہیں ۔ وہ گویا اپنے ہاتھ سے خزانہ شاہی پر دست اندازی کرنا چاہتے ہیں۔ کہ خدا کے اسرار مخفی میں بھی عقل کا ہاتھ ڈال کر جو چاہیں اٹھالیں۔ وہ گدائی کے طور پر  خدا سے عرفان نہیں مانگتے ہیں لیکن گھر کے مالک  بننا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے خدا نے بطور سزا کے ان عمیق  باتوں کو پوشیدہ رکھا ہے۔

          جب مسیح نے یائر سردار کی بیٹی کو زندہ کیا تو ٹھٹھے بازوں کو باہر نکالا جو عقل کے موافق صرف عادت کے پیرو تھے اور قدرت پر ذرا بھی خیال نہ کرتے تھے ۔ چنانچہ  انہوں نے  ٹھٹھا مار کے کہا تھا کہ لڑکی تو مرچکی ہے استاد کو تکلیف نہ دے تب مسیح نے انہیں باہر نکالا تاکہ الہیٰ جلال نہ دیکھیں یہ بے ایمانی کی سزا کے سبب سے تھا۔

          اس نے تو خود فرمایا کہ اپنے موتی سورؤں کے آگے مت پھینکو ۔ پس جس نے اپنے شاگردوں کو شریروں کے سامنے موتی پھینکنے سے منع کیا کیا وہ خود شریروں پر اپنے پاک بھید ظاہر کرے گا ؟ ہر گز نہیں۔

          ہاں اس نےبچوں پر ظاہر کردیا اب خواہ وہ بچے عالم تھے یا جاہل مگر وہ خدا کی ہدایت  کے محتاج تھے وہ خدا کی مرضی کے تابع اور فروتن تھے نہ خدا کے صلاح کار اور اس کے کارخانہ کے حصہ دار ۔

          یہ بچے انعام کے سزاوار تھے کیونکہ انہوں نے خدا کی عزت کی اور اپنے مرتبہ عبودیت سے آگے  نہ بڑھے  اور ساتویں  لیکچر کے موافق ان کی روحیں  بچنے کے لئے تیار تھیں اس لئے خدا نے ان پر فضل کیا اور یہ  قاعدہ کی بات ہے کہ اہل جہل بسیط ہمیشہ  ترقی کرجاتے ہیں اور اہل  جہل مرکب  نادانی میں مرتے جاتے ہیں اور ہمیشہ پست حال لوگ سر بلندی حاصل کرتے ہیں لیکن مغرور شکست کھاتے ہیں ۔

پس تیسرا فکر کا حاصل یہ ہے کہ :

          تثلیث  فی التوحید ادراک ذہن سے بالکنہ بلند وبالا ہے لیکن خدا اسے آدمیوں کی روحوں پر منکشف کرتا ہے اور یہ انکشاف  تصور عقلی سے زیادہ تر مفید ہے اور خدا آپ فروتنوں کو یہ انکشاف  بخشتاہے  اور مغرور اس کے مستحق  نہیں ہوتے ہیں جب تک فروتنی اختیار نہ کریں۔

سارےمضمون کا خلاصہ

(۱)تثلیث فی التوحید پر رسولوں اور مقدسوں کا سارا سلسلہ متفق ہے اس کا انکار اس سلسلہ سے جدائی کا باعث ہے ۔

(۲)اس کا انکار دلائل عقلیہ ونقلیہ سے جس طرح پر کہ کیا جائے تو وہ سب دلائل تثلیث  پیش شدہ کی کسی نہ کسی مقدمہ کی عدم رعایت کے سبب باطل ٹھہرتے ہیں۔

(۳)تثلیث  فی التوحید اگرچہ عقل سے بلند اور ادراک سے بالا ہے تو بھی اس کا انکشاف روح پر ہوتا ہے اگر یہ بات عقل سے ذہن میں آ سکتی تو بھی اس کی بات ہرگز کامل تسکین نہ ہوسکتی تھی لیکن وہ انکشافات  جو الله کی طرف سے بخشا جاتا ہے  وہی اس بارہ میں کامل تسلی کا باعث  ہوسکتا ہے پس یہ کہنا کہ تثلیث  کو ہم نہیں سمجھتے سچ ہے اور یہ کہنا کہ ہم اسے جانتے اور مانتے ہیں سچ ہے فقط۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (19598)
Comment function is not open
English Blog